Column

چوروں اور علی بابا میں فرق کیجئے

تحریر : سیدہ عنبرین
یہ بات تو قوم کو بخوبی سمجھ آچکی کہ جسے اقتدار میں لانا ہو وہ نیک ترین محب وطن اور راسخ العقیدہ مسلمان ہوتا ہے ، اس کی قابلیت، امانت داری و دیانت داری مسلمہ ہوتی ہے، اس پر شک کی گنجائش نہیں ہوتی، وہ دور بین نظر رکھتا ہے، اقتدار میں آنے سے قبل ہی ملک کو درپیش تمام مسائل بلکہ کئی برس بعد پیش آنے والی مصیبتوں کا توڑ اس کی مٹھی میں ہوتا ہے۔ اسی طرح جسے اقتدار سے رخصت کرنا ہو وہ چور، بددیانت اور ملک دشمنوں کا دوست ہوتا ہے، وہ آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھا قرار پاتا ہے، اسے ملنے والی غیر ملکی امداد کا سراغ بھی لگ جاتا ہے، اس کے گناہوں کے شریک کار وقت آنے پر وعدہ معاف گواہ بھی بن جاتے ہیں، ان کا ضمیر پانچ برس تک خواب خرگوش کے مزے لیتا رہتا ہے، پھر اچانک ضمیر انگڑائی لے کر بیدار ہوجاتا ہے اور گواہی کے کٹہرے میں نظر آتا ہے۔ چور کی بڑی نشانی بلکہ نشانیاں کچھ یوں ہوتی ہیں، وہ عام آدمی کے تصرف میں آنے والی اشیا کی قیمتوں کو مقدور بھر اعتدال پر رکھتا ہے، پٹرول ڈیڑھ سو روپے لٹر، ڈالر ایک سو اسی روپے لٹر، چینی پچاسی روپے کلو، آٹا بیس روپے کلو، روٹی پانچ روپے میں دستیاب ہوتی ہے، جبکہ بجلی کے یونٹ کی قیمت بیس روپے رہتی ہے۔ چور کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک کے نیک ترین افراد حکومت بناتے ہیں، پہلے جھٹکے میں ڈالر دو سو روپے اور پٹرول دو سو روپے لٹر ہوجاتا ہے، پھر دونوں بھائی یعنی ڈالر اور پٹرول ہاتھوں میں ہاتھ ڈالتے تین سو روپے سے یوں باہر ہوتے ہیں جیسے پہلی مرتبہ منصب پانے والا آپے سے باہر ہوتا ہے، آٹا ستر روپے کلو، چینی ڈیڑھ سو روپے کلو، روٹی تیس روپے میں ملتی ہے، مگر اس کی شکل پاپڑ سے ملتی جلتی ہے، روپے کی حیثیت چونی کے برابر رہ جاتی ہے، لیکن بتایا جاتا ہے بحران سے نکل آئے ہیں اور چار سال کا گند صاف کر دیا گیا ہے، اگر یہ سب کچھ صفائی کرنا سمجھ لیا جائے تو گند ڈالنے کا مطلب خدا جانے کیا ہوگا۔ بجلی کے بلوں میں رعایت دینے کی سکت نہ رکھنے والوں نے اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے درخواست کی ہے، اب ان کے جواب کا انتظار ہے، عین ممکن ہے وہ کورا جواب دے دیں، پھر کیا ہوگا، یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، دو بڑی سیاسی جماعتوں کے صف اول کے لیڈر آج بجلی کے بلوں میں رعایت کے معاملے پر عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دونوں لیڈر زمانہ اقتدار میں بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے سلسلے میں آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے ساتھ کھڑے تھے، دونوں وفاقی وزیر تھے، دونوں نے حکومتی فیصلوں کی تائید کی، عوام کی گردن کاٹنے کا وقت آیا تو دونوں نے چھری کے دستے پر اسی طرح ہاتھ رکھا جیسے سالگرہ کا کیک کاٹنے کیلئے ہمیں تصویروں میں کئی ہاتھ کیک پر چھری پھیرتے نظر آتے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کے وزیراعظم اور وزیر خزانہ، شہباز شریف اور اسحاق ڈار کو آئی ایم ایف کے مینجنگ ڈائریکٹر نے بجٹ سے بہت پہلے بتا دیا تھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں جس پر سر تسلیم خم کیا گیا، بعد ازاں رونے اور خود کو سچا ثابت کرنے کیلئے کہنا کہ آئی ایم ایف نے ہماری ناک سے لکیریں نکلوا دیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ آئی ایم ایف کسی ملک کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ اس کے پاس آئے اور قرض مانگے۔ کرپشن کلچر میں گھرے، لٹے اور تباہ حال ملک اور اس کے سربراہ خود آئی ایم ایف کے پاس مدد کیلئے جاتے ہیں۔ حکومت کیلئے ہمیشہ سے نرم گوشتہ رکھنے والے خاندان کی ایک ایم پی اے کا بیان گردش کر رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے لی گئی مدد سے ہر ممبر قومی اسمبلی کو انتخابی اخراجات پورے کرنے کیلئے اور اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کیلئے فی کس ایک ارب روپے دیئے گئے، اگر ایسا نہیں ہوا تو ان حلقوں کی طرف سے اس بات کی تردید آنی چاہیے، جس طرح دلہن کی خاموشی اقرار سمجھی جاتی ہے، پی ڈی ایم کی طرف سے اس خاموشی کو بھی اقرار سمجھا جائے، جانے والوں کو چور چور کہنے والوں نے کابینہ بنائی تو اس کے وزیروں، مشیروں کی تعداد 85کے قریب تھی۔ ایک صوبائی وزیر ایسا بھی تھا جو کرکٹ کھیل رہا تھا، وہ کئی ماہ کرکٹ کھیلتا رہا اور عوام کے ٹیکس کے پیسے سے مراعات لیتا رہا، یہ کھلواڑ کرنے والے کوئی ایک ایسا کام نہ کرگئے، جس پر فخر کر سکیں اور عوام کا سامنا کر سکیں۔ پانچویں مرتبہ اقتدار کی درخواست لیکر آنے والے صرف ایک بات کا جواب نہیں دے سکتے کہ ان کے زمانہ اقتدار میں پرائیویٹ سیکٹر سے سو سے زیادہ بجلی کے معاہدے مہنگے داموں کیوں کئے گئے، ان کا مسلط کردہ عذاب آئندہ پچاس برس تک قوم کا لہو نچوڑتا رہے گا۔ شریف حکومت میں شریک بھائیاں دی جوڑی نے کیا کیا ستم نہ ڈھائے لیکن دونوں کا طرز عمل ملاحظہ فرمائیے، جو کام نہ کرنے تھے ایک کہتا کہ وڈے پاجی نہیں مانتے، ان سے رابطہ کیا جاتا تو جواب ملتا میں نے چھوٹے کو فری ہینڈ دے رکھا ہے، میں اس کے کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔ کردار کی اس خوبی سے متاثر ہوکر شاید بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری بھی اب یہی طرز عمل اختیار کرنے کی طرف مائل ہیں، گڈ کاپ اینڈ بیڈ کاپ، مستقبل بلاول کا سنوارنا مقصود ہے، لہٰذا بلاول گڈکاپ کے روپ میں نظر آئے گا، زرداری صاحب اپنی اولاد کے سنہری سیاسی مستقبل کیلئے بیڈ کاپ کے رول میں نظر آئیں گے، مجبوری طور پر شریف، زرداری بھائی بھائی ہیں، عوام کی تقسیم در تقسیم بڑھ رہی ہے، ہر ایک کا اپنا چور اور سپاہی ہے۔ ہر کوئی اپنے چور کو بچانے کے لئے بڑھ چڑھ کر دلیل پیش کرتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہماری آنکھوں کے سوا ہماری ہر چیز کھل چکی ہے، عقل پر پڑا پردہ کون اٹھائے گا، ڈکیت خاندانوں نے رٹ لگا رکھی ہے، یہ ملک ایک معجزہ ہے، اسے کچھ نہیں ہوگا، یہ قیامت تک قائم رہے گا، اس رٹ کا مقصد ہے آپ مطمئن رہیں، ہمیں لوٹ مار کرنے دیں، قیامت تو کب کی آچکی، زندگی جہنم بن چکی، خدارا آنکھیں کھولئے، چوروں اور علی بابا میں فرق کیجئے، یہاں کوئی علی بابا نہیں ہے، کوئی نیا چور لے آئیے، پرانے چور نامنظور۔

جواب دیں

Back to top button