
سی ایم رضوان
آج سے ایک ہفتہ قبل ملکی معاشی و انتظامی صورتحال اس قدر تشویشناک تھی کہ تمام تر سیاسی قیادتوں، تمام تر دانشوروں تمام تر معاشی ماہرین کی ماہرانہ تجویزوں اور تجزیوں کے باوجود کوئی امید، کوئی خیر کی خبر، کوئی معاشی بہتری کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ بجلی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافے نے غریبوں کو سڑک پر آنے اور معاشی ابتری نے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو ہاتھ کھڑے کر دینے پر مجبور کر دیا تھا۔ ان مایوس کن اور پریشان کن حالات میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ایک یا دو میٹنگز پاکستان کی اعلیٰ کاروباری اور اہم شخصیات سے کیں۔ دو ایک سخت بیانات جاری کئے، سرحدوں، اہم انتظامی مقامات پر اور مالیاتی معاملات کی شدید ترین قباحتوں پر سخت ترین اقدامات کے احکام جاری کئے اور بس۔ پھر کیا تھا آج اور، کل اور، پرسوں اور، چوتھے روز اور، پانچویں روز اور، یہاں تک کہ بستر مرگ سے لگی شدید ترین علیل ملکی معیشت بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ علاج کیا تھا، بجلی چوری کے خلاف کریک ڈائون کیا گیا، ڈالر کی سٹے بازی پر روک لگا دی گئی، چینی کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی پر کڑا ہاتھ ڈالا گیا، پٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ اور چور بازاری پر سخت چیکنگ شروع کی گئی، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور سٹریٹ کرائمز کے منظم گروہوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کر دیئے گئے۔ اتنا شافی، اس قدر حوصلہ افزا اور اس حد تک افاقہ اتنی جلدی ہو جائے گا، امید، توقع اور اندازہ نہیں تھا، مریض کے لواحقین یعنی عوام کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا کہ اس قدر جلد افاقہ اس حکیم کی پہلی پڑیا سے ہو جائے گا جس حکیم کے متعلق کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ شاید وجہ یہ ہے کہ یہ حکیم مکمل، موثر اور انتہائی کڑوی دوائی بھی مریض کو کھلانے پر قادر ہے۔ لواحقین چاہتے ہوتے بھی اس حکیم کا ہاتھ نہیں روک سکتے۔ ہاں یہ ہے کہ اب اس نسبتاً غیر روایتی علاج پر تنقید ضرور کر رہے ہیں، یہ تنقید جمہوریت، انتخابات اور سیاست گردی کے ذریعے مزید بڑھ بھی سکتی ہے۔ حالانکہ ہم سب لواحقین عرصہ دراز سے دن رات یہی دعا کرتے تھے کہ یا اللہ کوئی مسیحا بھیج ورنہ یہ کرپشن اور بدعنوانیوں کا مرض مریض کو لے دے جائے گا۔ آج اگر اللّٰہ نے ایک نباض اور حاذق قسم کا حکیم بھیج دیا ہے اور اس نے اللّٰہ کا نام لے شافی علاج شروع کر دیا ہے تو ہم لواحقین کو سجدہ شکر ادا کرنا چاہئے کہ مرض پر قابو پا لیا گیا ہے۔ نئے حکیم صاحب کے علاج کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ شافی علاج کے لئے پولیس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سے ڈنڈے کی مدد بھی حاصل کی گئی ہے۔ اس سخت ترین ڈوز کا ہی نتیجہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 25روپے تک نیچے آیا، چینی بھی اتنے ہی روپے نیچے آئی، یہ بھی سنا ہے کہ سٹیٹ بنک میں دھڑا دھڑ آ کر منی ایکسچینجرز ڈالر جمع کرا رہے ہیں۔ یہ افاقہ خوش آئند ہے، یہ علاج کارگر ہے، یہ حکیم بھی ٹھیک ہے جبکہ مرض اس نہج تک پہنچ گیا تھا کہ یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح پورا ملک ہی کرپٹ ہو گیا کہ دنیا کے 140کرپٹ ممالک میں ہمارا نمبر 133واں ہو گیا۔ ہمارے ملک کا عدالتی نظام دنیا کے 140ممالک میں137ویں نمبر پر آ گیا۔ یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ اس سے قبل اکثر نیم حکیم خطرہ جان صفات کے حامل معالج اس مریض کا بظاہر علاج کرتے رہے مگر اندر کھاتے اسے مزید بیماریوں کا شکار بھی کرتے رہے۔ راشی، لالچی اور نالائق معالج ایک طرف خود لوٹ مار کرتے رہے اور دوسری طرف لوٹ مار کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دیتے رہے۔ اب حالات یہ ہو گئے تھے کہ ریاست کمزور اور لٹیرے طاقتور ہو چکے تھے طاقتور حلقوں میں سے بھی چند کالی بھیڑوں کے منہ کو خون لگ گیا تھا۔ سول حکمران ان پر ڈالنے کی جرات نہ رکھتے تھے نہ کرتے تھے۔
ملک کو لاحق کرپشن، بدعنوانی اور فرض ناشناسی جیسی بیماریوں کے مذکورہ بالا شافی علاج اور اپنے علاج کی زد میں آ جانے کے خدشہ سے گھبرا کر بعض لوگوں نے ایک بار پھر فوری انتخابات کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ بعض تو لاعلمی کی بنیاد پر لیکن کچھ جان بوجھ کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ لوٹ مار اسی طرح جاری رہے اور نئے انتخابات کے بعد نئی حکومت میں شامل ہو جائیں، چہروں سے نقاب بھی نہ اترے اور نئی لوٹ کھسوٹ بھی شروع گر دی جائے حالانکہ اب پانی سر سے اوپر چلا گیا ہی۔ اصلاحات اور اصلاح کے بغیر ملک نئے انتخابات جیسے خطرے کا بھی متحمل نہیں اور مزید لوٹ کھسوٹ اسے ڈیفالٹ کر دے گی۔ جس سٹیک ہولڈر کو اس ملک کی صحیح معاشی حالت کی خبر اور فکر ہے اس نے اب سب سے پہلے ڈنڈا پکڑ کر راشی طبقوں کی سرکوبی کرنا ہے۔ ڈالر کو اس کے صحیح مقام پر لانا ہے، مہنگائی کم کرنا ہے۔ پھر جا کر انتخابات کروانا ہے تاکہ ملک مناسب نہج پر چل سکے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیانات کے مطابق ڈیجیٹل مردم شماری 2023کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد حلقہ بندیوں کی تاریخ کا حتمی اعلان رواں سال 14دسمبر میں کیا جائے گا۔ اس شیڈول کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے جبکہ اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں اور ادارہ شماریات سے معاونت بھی طلب کی گئی ہے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق ہر صوبے کے لئے حلقہ بندی کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔ صوبائی حکومتوں، اضلاع اور تحصیلوں کے نقشہ جات، مردم شماری کی ضلعی رپورٹس بھی حاصل کی گئی ہیں۔ حلقہ بندی کمیٹیوں کی ٹریننگ بھی کی گئی ہے۔ قومی، صوبائی اسمبلیوں کا ضلعی کوٹہ بھی مختص کر دیا گیا ہے۔ اب حلقہ بندیوں پر اعتراضات 10اکتوبر سے آٹھ نومبر تک الیکشن کمیشن میں جمع کروائے جا سکیں گے۔ یہ اعتراضات 10نومبر سے نو دسمبر تک سن کر انہیں نمٹایا جائے گا۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی چونکہ اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل تحلیل کر دی گئی، لہٰذا آئین کے مطابق انتخابات 90روز میں ہونا ہیں۔ تاہم انتخابات منظور شدہ ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق ہونے ہیں اس لئے الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی۔ اس سے قبل سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے بتایا تھا کہ حلقہ بندیوں کے لئے کمیشن کو کم سے کم چار ماہ درکار ہوں گے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کے حلقہ بندیوں کے مذکورہ شیڈول کے اعلان کے بعد کوئی نیا انتظامی یونٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ شیڈول کے اعلان کے 15روز کے اندر انتظامی سطح کے انتظامات مکمل کیے جاتے ہیں جس میں متعقلہ ریونیو محکمہ سے تحصیل اور ضلع کے نقشہ جات اور ضروری ڈیٹا لینے کی درخواست کی جاتی ہے۔ ضلعی مردم شماری کی رپورٹ بشمول آبادی کے بلاک سائز ڈیٹا کمیٹی کو فراہم کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد حلقہ بندی کمیٹی کو پانچ روز میں تربیت دی جاتی ہے۔ اس دوران کمیٹیوں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کا ضلعی کوٹہ فراہم کیا جاتا ہے۔ حلقہ بندی کمیٹیاں 30روز کے اندر ابتدائی حلقہ بندیاں مکمل کرتی ہیں جس کے بعد چار روز کے اندر حلقہ بندیوں کی ابتدائی اشاعت کر دی جاتی ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017کے مطابق حلقہ بندیوں کے لئے ملک کو آبادی اور جغرافیائی لحاظ سے انتخابی حلقہ جات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کسی بھی حلقہ میں آبادی کا فرق 10فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا۔ حلقہ بندی کے بعد الیکشن کمیشن ووٹر لسٹوں کا کام مکمل کر کے انہیں منجمد کیا جاتا ہے جس کے بعد الیکشن شیڈول کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اب انتخابی کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کے لئے چار ماہ درکار ہیں۔ لہذا انتخابات اس سال ہونا ناممکن ہو جائے گا۔ حلقہ بندیوں کے مکمل ہونے کے بعد انتخابی مہم کے لئے تین ماہ درکار ہوں گے۔ اگر نئی حلقہ بندیاں ہوئیں تو فروری کے تیسرے ہفتے یا مارچ کے پہلے ہفتے میں انتخابات ہو سکتے ہیں۔ انتخابات کو وقت سے پہلے کروانے کو آئینی ضرورت قرار دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بھی آئینی تقاضہ ہے کہ حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گزشتہ روز بلاول بھٹو نے الیکشن کمیشن پر تنقید کی تھی اور تین ماہ میں انتخابات کا مطالبہ کیا تھا جس پر ان کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو خود سامنے آنا پڑا اور انہوں نے واضح کیا کہ انہیں الیکشن کمیشن پر مکمل اعتماد ہے۔ انتخابات سے پہلے حلقہ بندیاں ضروری ہیں یہ بھی ایک آئینی تقاضا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انتخابات سے زیادہ ملک کی معاشی سلامتی ضروری ہے۔ سب سیاست کی بجائے ملک بچانے کی فکر کریں کیونکہ اگر یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔ ملکی سلامتی کے لئے ضروری آپریشن آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے شروع کر رکھا ہے اور اس کے لئے ہم بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ حکیم جی یہی علاج جاری رکھیں۔ جو بھی محب وطن اور باشعور پاکستانی ہو گا وہ اس علاج کی حمایت کرے گا۔





