قصہ پون صدی کا

شکیل امجد صادق
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گائوں بندول جیراج پور میں4 جون 1857ء کو ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریا کوٹی سے حاصل کی۔ 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔ مولانا شبلی نعمانی اپنی ایک کتاب میں ایک واقعہ درج کرتے ہیں، جو موجودہ حالات اور ہمارے حکمرانوں کو راہ راست پر لانے کے کافی ہے۔ قارئین ملاحظہ کیجیے۔
سلطان محمود غزنوی کا دربار لگا ہوا تھا۔ دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے ، جن میں اولیاء قطب اور ابدال بھی تھے۔ سلطان محمود نے سب کو مخاطب کر کے کہا کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کروا سکتا ہے ؟ سب خاموش رہے، دربار میں بیٹھا اک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا میں زیارت کرا سکتا ہوں۔ سلطان نے شرائط پوچھی تو عرض کرنے لگا 6ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہو گا لیکن میں ایک غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچہ آپ کو اٹھانا ہو گا۔ سلطان نے شرط منظور کرلی، اس شخص کو چلہ کے لیے بھیج دیا گیا اور گھر کا خرچہ بادشاہ کے ذمے ہو گیا۔6ماہ گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا تو دیہاتی کہنے لگا حضور کچھ وظائف الٹے ہو گئے ہیں لہٰذا 6ماہ مزید لگیں گے۔ مزید 6ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود کے دربار میں اس شخص کو دوبارہ پیش کیا گیا تو بادشاہ نے پوچھا میرے کام کا کیا ہوا ؟
یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا بادشاہ سلامت کہاں میں گنہگار اور کہاں حضرت خضر علیہ السلام۔ میں نے آپ سے جھوٹ بولا: میرے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہو رہا تھا، بچے بھوک سے مر رہے تھے، اس لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔
سلطان محمود غزنوی نے اپنے ایک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا اس شخص کی سزا کیا ہے ؟ وزیر نے کہا اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ہے، لہٰذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے۔ دربار میں اک نورانی چہرے والے بزرگ بھی تشریف فرما تھے، کہنے لگے بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا۔ بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا آپ بتائو، اس نے کہا کہ اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے، اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہو کر مرے، اسے مرنے میں کچھ وقت، تو لگے دربار میں بیٹھے اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔
سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز سے پوچھا تم کیا کہتے ہو ؟ ایاز نے کہا بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے ایک سال ایک غریب کے بچے پلتے رہے، آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا۔ اگر میری بات مانیں تو اسے معاف کر دیں، اگر اسے قتل کر دیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے۔ ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے والا بابا کہنے لگا ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ سلطان محمود غزنوی نے اس بابا جی کو بلایا اور پوچھا آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے۔ بابا جی کہنے لگا بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا اس کا گلا کاٹا جائے وہ قوم کا قصائی ہے اور قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا۔ اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا، غلطی اس کی نہیں آپ کی ہے کہ آپ نے ایک قصائی کو وزیر بنا لیا۔ دوسرا جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے، اس وزیر کا والد بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتا تھا، کتوں سے شکار کھیلتا تھا، اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے تو اس نے اپنے خاندان کا تعارف کرایا۔ آپ کی غلطی سے کہ ایسے شخص کو وزارت دی، جہاں ایسے لوگ وزیر ہوں وہاں لوگوں نے بھوک سے ہی مرنا ہے اور تیسرا ایاز نے جو فیصلہ کیا تو سلطان محمود سنو ایاز سیّد زادہ ہے۔ سیّد کی شان یہ ہے کہ سیّد اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کرا دیتا ہے مگر بدلا لینے کا کبھی نہیں سوچتا۔ سلطان محمود اپنی کرسی سے کھڑا ہو جاتا ہے اور ایاز کو مخاطب کر کہ کہتا ہے ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سیّد ہو۔
ایاز کہتا ہے آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ایاز سیّد ہے لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا آج میں بھی ایک راز کھول دیتا ہوں، ’’ اے بادشاہ سلامت یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں، یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں‘‘۔
شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں:
گِلے خوش بوئے در حمّام روزے
رسید از دستِ مخدومے بہ دستم
( ایک دن حمام میں، ایک مہربان کے ہاتھ سے مجھ تک ایک خوشبودار مٹی پہنچی)۔
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم
( میں نے اس سے کہا کہ تو مشکی ہے یا عبیری ( دونوں اعلیٰ خوشبو کی قسمیں ہیں) کہ تیری دل آویز خوشبو سے میں مَیں مست ہوا جاتا ہوں)۔
بگفتا من گِلے ناچیز بودم
و لیکن مدّتے با گل نشستم
( اس نے کہا میں تو ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گُل کے ساتھ نشست رہی ہے)۔
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
( اور ہم نشیں کے جمال نے مجھ پر بھی اثر کر دیا ہے وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے)۔





