Column

انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت اور الیکشن کمیشن کے اقدامات

شبیر خان
دنیا کے کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے انتہائی اہم ہے کہ اس معاشرے کی خواتین اور مرد سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کریں اور انتخابی عمل میں فعال کردار ادا کریں۔ قومی فیصلہ سازی کے عمل کے تمام مراحل میں مردوں اور خواتین کی مساوی شرکت، سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی میں غیر امتیازی سلوک ہی افضل انسانی حقوق ہیں۔ دنیا کی ترقی یافتہ معاشروں نے جس دن سے اس حقیقت کو قبول کیا ہے ا سی دن سے ہی اپنی سیاسی، معاشی اور معاشرتی ترقی کا آغاز کیا جو کہ آج تک جاری ہےUniversal Declaration for Human Rights۔1948کے پہلے آرٹیکل کے مطابق ’’ تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور وقار اور حقوق میں برابر ہیں‘‘۔ یہی رہنما اصول بعد میں مرتب ہونے والے تمام بین الاقوامی، علاقائی اور ملکی قوانین کا حصہ بنے اور ترقی یافتہ معاشرے انہی شعار اور رویوں کو اپناتے ہوئے ترقی کی وہ منازل طے کرتے گئے جو کہ انسان کے لئے ناممکن ہوا کرتی تھیں۔ معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان بھی کئی بین الاقوامی اور علاقائی اداروں کا نہ صرف ممبر بنا، بلکہ کئی دو طرفہ، سہ فریقی اور کثیر الجہتی معاہدات پر بھی دستخط کئے جو کہ ممبر ممالک کو اس بات کا پابند بناتی ہیں کہ وہ ملک کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اور انتخابی عمل میں خواتین کو برابر مواقع فراہم کرینگے۔ ان بین الاقوامی معاہدات اور تصانیف میں UDHR CEDAW، ICCPR، CRPD،ICEARDاورSDGsشامل ہیں۔
آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان اور الیکشن ایکٹ 2017کے مطابق اپنے ووٹ اور حق رائے دہی کا استعمال نہ صرف خواتین کا قانونی اور آئینی حق ہے بلکہ ایک قومی فریضہ اور ذمہ داری بھی ہے۔ اور الیکشن کمیشن خواتین کو اپنے اس آئینی حق کو دلانے کے لئے کوشاں ہے تاکہ ملک کے باقی شہریوں کی طرح اس ملک کی خواتین بھی مکمل طور پر پاکستان کے انتخابی عمل کا حصہ بنیں۔ اپنے ووٹ اور پارلیمان میں نمائندگی کے ذریعے ملک کی فیصلہ سازی کے عمل میں برابر کی شریک ہوں۔ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن بنائی جس میں معاشرے کے تمام طبقات کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
الیکشن کمیشن اپنی اس آئینی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے کیلئے مختلف اقدامات کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ای سی پی نے ایک علیحدہ ونگ جینڈر اینڈ سوشل انکلوژن ونگ تشکیل دیا ہے، جس کی سربراہی ایک خاتون افسر کر رہی ہے۔ یہ ونگ خواتین، ٹراسجینڈر، افراد باہمی معذوری اور مذہبی اقلیتوں کی انتخابی عمل میں شرکت کو یقینی بنانے کے لئے کام کرتا ہے۔ اسی طرح صوبائی سطح پر صوبائی الیکشن کمشنر کے دفاتر میں بھی جینڈر اینڈ سوشل انکلوژن ونگز موجود ہیں، جس کا بنیادی مقصد خواتین، ٹرانسجینڈر، معذور افراد اور اقلیتوں کو انتخابی دھارے میں شامل کرنا ہے تاکہ پاکستان کا انتخابی عمل مزید Inclusiveبنایا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ خواتین، ٹرانسجینڈر، معذور افراد اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو انتخابات سے متعلق در پیش مسائل کے حل کو یقینی بنانے کے لیے ای سی پی نے 2016سے سول سوسائٹی آرگنائزیشن اور دوسرے متعلقہ سٹیک ہولڈرز اور اداروں کے ساتھ مل کر جینڈر اینڈ ڈس ایبیلیٹی الیکٹورل ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیا۔ جوکہ چاروں صوبوں میں صوبائی الیکشن کمشنرز کی زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ جس میں ٹرانجینڈرز کی نمائندہ تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ ہر دو ماہ بعد صوبائی الیکشن کمشنرز کے دفاتر میں اس ورکنگ گروپ کی میٹنگز ہوتی ہیں، اور خواتین، خواجہ سرہ کمیونٹی، افراد باہمی معذوری اور اقلیتوں کے الیکشن کمیشن سے متعلق مسائل پیش کئے جاتے ہیں اور اور ان کے حل کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن اپنے ڈویلپمنٹ پارٹنرز کا بھی شکر گزار ہے جنہوں نے پاکستان میں انتخابی عمل کی مضبوطی اور عوام کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے ہمیشہ الیکشن کمیشن کا ساتھ دیا۔ اس کے علاوہ، خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت کو یقینی بنانے اور عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے کے لئے الیکشن کمیشن ہر سال خواتین کا عالمی دن مناتا ہے جس میں خواتین کو انتخابی عمل میں درپیش مسائل پر بحث کی جاتی ہے اور ان کے حل کے لئے تجاویز مرتب کی جاتی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مرتب کردہ تیسرے سٹریٹجک پلان کے مطابق ای سی پی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ تمام اہل افراد، خاص طور پر خواتین اور سماجی لحاظ سے محروم طبقات شناختی کارڈ حاصل کریں اور بحیثیت ووٹر ان کا اندراج ممکن ہو۔ اس مقصد کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز جیسے ( نادرا، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور پارلیمنٹیرینز) ای سی پی کی معاونت کرتے ہیں۔ اور الیکشن کمیشن اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ خواتین اور محروم طبقات کے لئے دفتر کا ماحول سازگار ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ای سی پی ملک کے چاروں صوبوں میں تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر’’ جینڈر مین سٹریمنگ اینڈ سوشل انکلوژن فریم ورک‘‘ پر کام کر رہا ہے جو کہ عنقریب ہی مکمل ہو کر کمیشن کے سامنے منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔
الیکشنز ایکٹ 2017میں خواتین کی انتخابات میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے کئی نئے اقدامات متعارف کرائے گئے، جن میں کسی بھی حلقے میں دوبارہ پولنگ شامل ہے جہاں خواتین کا ٹرن آئوٹ 10فیصد سے کم ہو۔ مزید برآں، خواتین کو ووٹ ڈالنے یا انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے عمل کو جرم قرار دیا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی غیر مخصوص نشستوں میں سے کم از کم 5فیصد پر خواتین امیدواروں کو نامزد کرنا شامل ہے۔ ای سی پی نے صرف خواتین کے لیے پولنگ سٹیشن قائم کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کی، جس میں تمام خواتین عملہ ہو، انہی اقدامات کی بدولت گزشتہ عام انتخابات میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر انتخابی عمل میں حصہ لیا۔
الیکشن کمیشن کی تحقیق اور سروے کے مطابق انتخابی عمل میں خواتین کی مردوں سے کم شرکت کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی وجہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کیلئے شناختی کارڈ کا حصول مشکل ہونا شامل ہے۔ کیونکہ کچھ سال پہلے انتخابی فہرستوں میں تقریبا 12فیصد جینڈر گیپ تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی 12فیصد خواتین جو کہ ووٹ ڈالنے کی اہل ہیں لیکن شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ انتخابی عمل کا حصہ نہیں بن پا رہی تھیں۔ جینڈر گیپ کو کم کرنے کے الیکشن کمیشن نے ہنگامی بنیادوں پر کئی اقدامات کئے۔ جن میں ملک کے تمام اضلاع میں ای سی پی نادرا کی شراکت سے خواتین شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن کی خصوصی مہم چلائی گئی۔ یہ مہم 2017میں شروع کرد ی گئی تھی ۔ اسی خصوصی مہم کا پانچواں فیز آج بھی ملک کے کئی اضلاع میں جاری ہے اس مہم کے تحت موبائل رجسٹریشن وینز ( ایم آر ویز) کے ذریعے خواتین کے لئے ان کے گلی محلوں میں ہی شناختی کارڈ کا حصول ممکن ہو رہا ہے۔ اس خصوصی مہم کے نتیجے میں پاکستان کے دور دراز علاقوں سے لے کر شہری علاقوں تک کروڑوں خواتین کی ووٹ رجسٹریشن ہوئی ہے جس کی وجہ سے انتخابی فہرستوں میں جینڈر گیپ کو 8فیصد پر لایا گیا ہے، جو کہ الیکشن کمیشن، نادرا، دیگر سٹیک ہولڈرز اور پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ الیکشن کمیشن کی یہ خواہش ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اس مہم کو جاری رکھا جائے تاکہ ملک میں تمام اہل افراد انتخابی عمل کا حصہ بن سکیں اور جینڈر گیپ کو کم سے کم کر دیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ ووٹر ایجوکیشن کمیٹیز قائم کر دی گئی ہیں۔ جس میں سول اور لوکل گورنمنٹ کے نمائندگان، سول سوسائٹیز کے نمائندگان، صحافی حضرات اور سیاسی جماعتوں کے نمائندگان بھی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی ماہانہ کی بنیادوں پر میٹنگ کرتی ہے اور ووٹر آگاہی مہم چلاتی ہے تاکہ عوام تک انتخابی عمل کی معلومات پہنچائی جا سکیں۔ اس کے علاوہ صوبائی سطح پر مختلف سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے، اور ٹی وی اور سو شل میڈیا پر خصوصی آگاہی پروگرام چلائے جاتے ہیں جس میں الیکشن کمیشن کے افسران شرکت کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد محروم طبقات کو انتخابی عمل کا حصہ بنانا اور ان کو ووٹ کی اہمیت کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔
الیکشن کمیشن کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ الیکشن کے دن خواتین کو کئی انتظامی مشکلات اور معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے الیکشن کمیشن کی طرف سے پولنگ سے قبل پولنگ عملے کی تربیت کے دوران انہیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ انتخابی قوانین 2017کی رو سے بیمار، حاملہ، معذور خواتین اور خواجہ سرا کا ووٹ ترجیحی بنیادوں پر کاسٹ کرائے جائیں۔ پولنگ کے دوران پولنگ اسٹیشن پر موجود کسی بھی شخص کو اجازت نہیں کہ وہ خواتین کے حق رائے دہی کے استعمال میں رکاوٹ بنے۔ سیکیورٹی عملے کی تربیت کے دوران بھی انہیں تاکید کی جاتی ہے کہ خواتین ووٹرز کو پولنگ سٹیشن پر داخل ہونے سے ہر گز نہ روکا جائے اور نازیبا رویہ اختیار کرنے والے افراد کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ یہ سب ہدایات پولنگ عملے کے تربیتی ہینڈ بک میں بھی درج کی جاتی ہیں
الیکشن کمیشن کی مسلسل کوششوں کے باوجود ووٹر لسٹ میں خواتین کی تعداد امردوں کے مقابلے میں کم ہے اور الیکشن کے دن خواتین ووٹرز کا ٹرن آئوٹ بھی کم رہتا ہے۔ جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمیں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن اپنے پارٹنر آرگنائزیشن، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور نادرا کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے پارٹنرز ہمارے ان کاوشوں میں ہمارا ساتھ دین گے اور معاونت فراہم کرینگے ۔
ہمارے ملک میں خواتین ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ، جج، بینکرز، سیاستدان غرض کہ تمام شعبہ جات میں خواتین کی خدمات مثالی ہیں۔ ایک جمہوری ملک ہونے کے ناطے، جہاں ہر ووٹ اہمیت کا حامل ہے، الیکشن کمیشن انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت پر یقین رکھتے ہوئے ان کی شرکت کو لازمی سمجھتا ہے۔ اس ضمن میں اٹھائے جانے والے اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ سیاسی میدان میں خواتین کا کردار کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔

جواب دیں

Back to top button