Column

ایران گیس پائپ لائن معاہدہ

ضیاء الحق سرحدی
پاکستان میں گیس کی شدید قلت کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ کم و بیش ایک دہائی سے سرد خانے میں پڑا ہے ، ایران کی جانب سے پائپ لائن کا کام مکمل کر لیا گیا ہے ۔ آصف علی زرداری اپنے دور صدارت میں ایران جا کر اس کا افتتاح بھی کر چکے ہیں ، لیکن پاکستان کی جانب ابھی تک کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی ۔ چند ماہ قبل ایران کی جانب سے پاکستان کو معاہدہ میں تاخیر پر طے شدہ جرمانے کی وارننگ بھی دی گئی تھی جو 18ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے ، اگر ایران اس معاملہ میں کسی عالمی فورم پر چلا گیا تو پاکستان کے لئے جرمانے سے بچائو کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک جانب ملک میں گیس کی شدید قلت ہے اور دوسری جانب سستی اور فوری گیس کی فراہمی سے فرار حاصل کیا جارہا ہے، وہ بھی ایک پڑوسی اور دوست ملک سے ۔ حکومت کی جانب سی معاملہ امریکی پابندیوں کے سر ڈالنا بھی محل نظر ہے، کیونکہ ابھی چند ہفتے قبل ایران سے بجلی کی خریداری کا معاہدہ ہوا اور بجلی کی ترسیل شروع بھی ہو چکی ہے ، کیا اس وقت امریکی پابندیاں نہیں تھیں؟ دوسری جانب ان تمام پابندیوں کے باوجود بھارت نہ صرف ایران سے گیس حاصل کر رہا ہے بلکہ اس نے ایران سے سستا پٹرول خرید کر مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر کے اپنی معیشت کھڑی کر لی ہے۔ حیرت تو اس پر ہے کہ کیا یہ پابندیاں بھارت کے لئے نہیں ہیں؟ اسی طرح تو پاکستان چین اور روس سے بھی بہت کچھ حاصل کر رہا ہے۔ امریکہ چین اور روس سے کاروبار کرنے والے ممالک پر بھی پابندیاں لگا رہا ہے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل امریکی دبائو پرسی پیک اور چین کے ساتھ دفاعی معاہدوں سے پیچھے ہٹنے کی نوبت نہیں آئے گی ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدہ صرف ایک تجارتی معاہدہ نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے اعتماد اور اعتبار کا معاملہ بھی ہے۔ امریکی دبائو پر ہم اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ ایک عرصہ سے کیا گیا معاہدہ پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کل چین اور روس سمیت کوئی بھی ملک اعتماد نہیں کرے گا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل کریں، اپنے اقتدار اعلی کو گر وی نہ رکھیں ، ورنہ ہمارے دوستوں میں سے کوئی بھی اعتبار نہیں کرے گا اور معاشی بحالی کے تمام منصوبے دھرے رہ جائیں گے ۔ قومی اداروں کو چاہئے کہ اس عاقبت نا اندیشانہ فیصلے کو واپس لیں ، ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کو مکمل کریں سرمایہ کاری کے منصوبوں میں اسے بھی شامل کریں ۔ اگر معاملہ تاخیر کے باعث ایران کی جانب سے جرمانہ عائد ہونے کا ہے تو اس پر الگ سے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعہ سے راستہ نکال لینا چاہئے ۔ پہلی تاخیر کی غلطی کو درست کرتے ہوئے دوسری پہاڑ جیسی غلطی نہیں کرنی چاہئے اس سے بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔
ایران اور پاکستان دونوں برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں جب کہ ہماری شناخت ہمارا مسلک نہیں اسلام ہے اور ہمیں اسلام کی حقیقی روح دنیا کو دکھانا ہوگی۔ پاکستان اور ایران اس خطے کی اہم قوتیں ہیں، دونوں ملک بہت سے شعبوں میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں، خصوصاً ایران کے پاس توانائی وافر مقدار میں ہے جبکہ پاکستان کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے، پاکستان ایران سے گیس اور تیل لے کر توانائی کی قلت پر قابو پاسکتا ہے تاکہ پاکستان کو توانائی کے جس بدترین بحران کا سامنا ہے اس سی نکل سکے۔ ایران برادر ہمسایہ ملک، تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے پاکستان کا انتہائی اہم دوست ہے ، دونوں ممالک کے مابین کئی جہتیں یکساں ہیں، باہمی سطح پر مزید بہتر مستقبل اور عوامی خوشحالی کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور 1965ء کو پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے طیاروں کو محفوظ بنانے کیلئے اپنے ہوائی اڈے پاکستان کی تحویل میں دے دئیے تھے۔ دوسری طرف افغانستان دنیا بھر میں واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو اقوام متحدہ کا رکن بنائے جانے کی مخالفت کی تھی اور افغانستان اکثر اوقات اب بھی پاکستان کے خلاف نہایت زہریلے بیانات دیتا رہتا ہے۔ ایران پاکستان دو برادر ملک ہونے کے باوجود ان کے مابین تجارتی حجم محض50کروڑ ڈالر ہے جو کہ بہت کم ہے ۔ دوطرفہ بینکاری کے قیام سے تجارتی حجم 2 ارب ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت ایران کو چاول اور ٹیکسٹائل مصنوعات بر آمد کرنے کے وسیع تر مواقع موجود ہیں جس سے مقامی صنعتوں کو فروغ مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان ایران دو ہمسایہ ملک ہونے کے باوجود معیشت کے مختلف شعبوں میں تعاون کی گنجائش وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید مضبوطی اور گہرائی پیدا ہوگی بلکہ دونوں ملکوں کے عوام بھی خوش حال ہوں گے۔ جبکہ ایرانی صدر نے سی پیک میں شامل ہونے کے لئے گہری دلچسپی کا اظہار بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ یاد رہے کہ ایرانی صدر نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقعہ پر چینی صدر سے ملاقات میں بھی سی پیک میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ پچھلے دنوں پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ چاہ بہار بندرگاہ گوادر پورٹ کو نقصان پہنچائے گی۔ جبکہ پاکستان نے ان خدشات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاہ بہار گوادر پورٹ کے مقابلے میں چھوٹی ہے اور یہ دونوں بندرگاہیں ایک دوسرے کی حریف نہیں حلیف اور مددگار ثابت ہوں گی۔ یہی بات چینی سفیر نے بھی کہی کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے گوادر بندرگاہ کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ یاد رہے کہ گوادر پورٹ کا ٹھیکہ اور وہاں ہر طرح کا ترقیاتی کام کی ذمہ داری چین کی ہے۔ گوادر پورٹ کو اگر چاہ بہار سے نقصان پہنچا تو سب سے پہلے ایران آواز اٹھاتا۔ پاکستان میں ایسی قوتیں ہیں جن کی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان ایران میں دشمنی ہو جائے۔ ان تمام سازشوں کے باوجود مقام شکر ہے کہ پاکستانی آرمی کہہ چکی ہے کہ ایران ہمارا اسلامی برادر ہمسایہ ملک ہے اور ایران کے ساتھ دوستی پر کسی بھی طرح سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔

جواب دیں

Back to top button