Column

موت ہی مفت کر دیجئے

سیدہ عنبرین

ہم کتنے آزاد و خودمختار ہیں، اب راز نہیں لیکن بجلی بحران کے بعد تو کوئی ابہام باقی نہیں رہا، قلعی کھل گئی ہے۔
بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور استعمال شدہ بجلی پر اندھا دھند ٹیکسز لگانے کے بعد بھی تسلی نہ ہونے پر ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر چوری ہونے والی یا کرائی جانیوالی بجلی کی قیمت بھی صارفین سے وصول کرنے کا سنہری اصول عرصہ دراز سے رویہ عمل رہا ہے۔ پانی سر سے اونچا ہوا تو صارفین کی آواز بھی اونچی ہو گئی۔ وہ سراپا احتجاج سڑکوں پر آگئے، ان کے تیور دیکھ کر حکومت کو اندازہ ہو گیا کہ معاملات قابو سے باہر ہونے کو ہیں، لہذا بتایا گیا ہے کریڈٹ جماعت اسلامی کا ہے، جو قومی سیاست میں بہت زیادہ فعال کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آئی لیکن مہنگائی اور بجلی کے ناجائز بلوں کے نام پر قوم کو متحد کرنے اور عوام کو باہر لانے میں کامیاب رہی۔ بتایا گیا کہ کامیاب ملک گیر ہڑتال کے بعد خاموشی اختیار نہیں کی جائیگی بلکہ ملک بھر میں تمام صوبوں کے گورنر ہائوسز کے باہر دھرنا دیا جائیگا۔ صورتحال کی نزاکت کو بھاپنتے ہوئے حکومت نے ریلیف کا عندیہ دیا اور ایک ہفتہ گزار گئی، پھر وزیر اعظم نے اعلان کر دیا کہ بجلی کے بل تو دینے ہی ہونگے۔ ان کے اس بیان نے عوام کی بے چینی میں اضافہ کر دیا، پھر ایک اور ریلیف کا جھانسا مارکیٹ کیا گیا کہ تین سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو تین ہزار روپے کا ریلیف دیا جائیگا۔ سفارشات تیار کر کے منظوری کیلئے نظام چلانے والی اصل طاقت کو بھجوا دی گئیں اور ان کے گرین سگنل کا انتظار شروع ہو گیا ۔ سادہ لوح عوام کو بہلانے کیلئے لالی پاپ دیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف کیا جواب دیگا، سب جانتے تھے، پھر ان کا جواب آگیا، یعنی انہوں نے کسی بھی قسم کا ریلیف دینے سے انکار کر دیا۔ اب بغلیں جھانکی جارہی ہیں کہ کیا کیا جائے۔ گھریلو صارفین کیلئے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت قریباً اٹھاون روپے ہے، ایک ہزار یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو اٹھاون ہزار روپے کا بل آنا چاہیے، لیکن انہیں ڈیڑھ لاکھ روپے کا بل بھیجا جا رہا ہے۔ یعنی استعمال شدہ بجلی سے قریباً تین گنا زیادہ، اس بل میں کئی ٹیکس ہیں، ان کے اوپر مزید کئی ٹیکس لگا کر کیپسٹی چارجز اور چوری شدہ بجلی کے چار ہزار ارب روپے صارفین سے وصول کرنے کا ظالمانہ بہیمانہ فیصلہ کھل کر سامنے آچکا ہے۔
دوسری طرف مفت خوروں کی سہولت ختم کرنے کی بجائے سیدھی طرف سے ناک پکڑنے کی بجائے الٹی طرف سے ناک پکڑنے کی تیاری شروع ہے، جس کے مطابق انہیں ملنے والی مفت بجلی کی سہولت ختم کر کے اتنی ہی رقم انہیں بجلی الائونس کی مد میں دینے کے منصوبے کو آخری شکل دی جارہی ہے، لیکن دیانتداری کا مظاہرہ کرنے والے صارفین کے سر پر سے چوری شدہ بجلی اور نادہندگان کے بلوں کی تلوار ہٹانے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔
تاثر دیا جارہا ہے کہ ہم عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں آئی ایم ایف مانتا نہیں، جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ آئی ایم ایف عہدیداروں کا موقف عرصہ دراز قبل سامنے آچکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم غریبوں کو رعایت دینے کے حق میں ہیں جبکہ مراعات یافتہ طبقے اور امراء پر اضافی بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن حکومت پاکستان کی اپنی مختلف ترجیحات ہیں۔
نیازی حکومت نے جاتے جاتے طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والوں کو دس ارب ڈالر بلا سود بانٹے تھے۔ ان کے جانے کے بعد ہم ایک ایک ڈالر کو محتاج ہو گئے۔ لیکن ان شخصیات سے کسی نے نہ کہا کہ ملکی خزانے کے نازک حالات کو دیکھتے ہوئے دیئے گئے اربوں ڈالرز پر سود ادا کریں یا پھر وہ رقم حکومت کو واپس کریں۔ آئی ایم ایف سے ڈیڑھ یا دو ارب ڈالر حاصل کرنے کیلئے ہم ناک سے لکیریں نکال رہے ہیں لیکن اشرافیہ کو دیئی گئے اربوں ڈالر کی واپسی کا نہیں کہہ رہے ۔ ڈالر وہاں پہنچ گیا ہے جہاں پہنچنے کے بعد سری لنکا ڈیفالٹ کر گیا تھا۔ ہمیں اب بھی بتایا جارہاہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں غیبی امداد پہنچنے ہی والی ہے۔ کچھ خبر نہیں ایسی غیبی امداد والی کہا نی کا وہی انجام ہو جو 1971ء کی جنگ میں ہم ایک مرتبہ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ ملک دو لخت ہونے کے قریب تھا اور کہا جارہا تھا کہ ہمیں بچانے کیلئے امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا روانہ ہو چکا ہے، مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا، امریکی بحری بیڑا نہ پہنچا، ہم انتظار ہی کرتے رہ گئے، بعد ازاں حقیقت کھلی کہ امریکہ نے ہم سے کوئی وعدہ کیا، نہ ہم نے اس سے مدد کی درخواست کی۔ اس بحری بیڑے نے اپنا طے شدہ وقت سمندر میں پورا کیا، اس کی ڈیوٹی ختم ہوئی، نئے جہاز ڈیوٹی پر آگئے، پہلے سے موجود عملے نے چھٹیوں پرجانا تھا، بحری بیڑے نے اس پروگرام کے تحت حرکت ضرور کی، لیکن اپنے ٹائم ٹیبل کے مطابق ہماری مدد کیلئے نہیں۔ بجلی بحران کے پیچھے پیچھے چینی بحران بھی چل پڑا ہے، کہانی نئی نہیں پرانی ہے، چینی مافیا نے پہلے چینی ایکسپورٹ کی، پھر سٹاک کر لی۔ اب قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ ملک کے طول و عرض سے صدائے احتجاج بلند ہونے پر بروکر سٹاکسٹ اور ملز مالکان ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اعلیٰ عدالت کی طرف سے سٹے حاصل کرنے کے بعد خوش و خرم اور شاد ہیں، انہیں یقین ہے اس سسٹم میں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
حکومت پنجاب کے سربراہ وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے معاملے کی تہہ تک پہنتے ہوئے کھلے لفظوں میں اس پر اظہار کیا ہے، سازش کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ اس مافیا کے خلاف عدالتی اپیل دائر کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں لیکن اپیل کرتے کرتے، فیصلہ آتے آتے، چڑیاں چینی چگ چکی ہونگی۔ پیچھے لٹے پٹے روتے ہوئے عوام رہ جائیں گے۔ چینی مافیا اور اس قسم کے دیگر مافیا پر آہنی ہاتھ ڈالا جائے۔ ایم پی او کے تحت گرفتاریاں کی جائیں۔ پھر تو ریلیف کی کوئی صورت نکل سکتی ہے، بصورت دیگر کچھ بھی کر لیں وہ آیناں جایناں ہی شمار ہونگی، نتیجہ صفر ہی رہے گا۔
مفتہ کلچرل سے فیض یاب ہونے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ کے قریب ہے، ان میں واپڈا، سوئی گیس اور دیگر محکموں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ و ادنیٰ شامل ہیں، غریب آدمی کیلئے ملک کے نظام میں کچھ بھی مفت نہیں۔ لاہور کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں میں ماڈل قبرستان بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ایک شخص کی موت پر اس کے کفن دفن کا خرچ دس ہزار روپے لیا جاتا تھا، وزیر اعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر اس میں ڈسکائونٹ کے بعد اسے 3500روپے کر دیا گیا ہے، گرانی کے اس دور میں یہ اب بھی زیادہ ہے، غریب آدمی یہ بھی افورڈ نہیں کر سکتا، پس اور کچھ نہیں تو موت ہی مفت کردی جائے۔

جواب دیں

Back to top button