ColumnM Riaz Advocate

نئے میثاق جمہوریت کی اشد ضرورت

تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ
میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے انتخابی مہم میں سابق سپہ سالار، سابق ڈی جی آئی ایس آئی، سابق چیف جسٹس اور عمران خان کے خلاف تنقید نہ کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ بتایا گیا ہے کہ سابقہ ملکی اہم شخصیات نے مشترکہ دوستوں کے ذریعے مشورہ دیا کہ نوازشریف ماضی کو بھول کر مستقبل کی سیاست کو دیکھیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بھی مشترکہ دوستوں کی رائے کا ساتھ دیا۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اپنے بھائی اور مشترکہ دوستوں کو انکار کر دیا۔ نوازشریف کا موقف ہے کہ صرف میری ذات کی بات ہوتی تو درگزر کر جاتا لیکن ترقی کرتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچایا گیا ۔ سازشی عناصر کو ہر صورت میں قانون کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔ خیال رہے کہ ن لیگ عام انتخابات میں مصالحانہ کی بجائے جارحانہ انداز اپنانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ ن لیگ انتخابی مہم میں انتقامی کارروائیاں ڈاکومینٹری کی صورت میں سامنے لائی جائیں گی۔ ذرائع کے مطابق انتخابی مہم میں اداروں کے بجائے سابق چند اہم شخصیات کو ہدف تنقید بنایا جائے گا، سابق چیف جسٹس اور دیگر کے پسِ پردہ کردار کا انکشاف بھی کیا جائے گا۔ میڈیا کی اس رپورٹ میں کہاں تک سچائی ہے اسکی حقیقت جلد سامنے آجائے گی۔ بہرحال اس بات میں رتی برابر شک نہ ہے کہ نوازشریف اور ان کے خاندان کیخلاف ماضی میں کئی مرتبہ زیادتیاں کی گئی۔ مشرف کے دور حکومت میں تو ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی۔ نواز شریف کو مسند اقتدار سے ہٹانے کیساتھ ساتھ عمر قید کی سزا اور سزائے موت کے لئے تگ و دو۔ بالآخر خاندان سمیت جبری جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ باپ کی وفات پر سعودیہ سے آئے نواز شریف کو ایئرپورٹ سے باہر نکلنے نہ دیا بلکہ زبردستی جہاز میں بٹھا کر ملک بدر کرکے سعودیہ واپس بھیج دیا گیا۔ 2013ء میں بھرپور عوامی مینڈیٹ لیکر مسند اقتدار پر تیسری مرتبہ براجمان ہوئے۔ مشرف کی جانب سے ملک میں دوسری مرتبہ مارشل لائ/ایمرجنسی نافذ کرنے کے جرم کے برخلاف سنگین غداری مقدمہ قائم کرنے کی پاداش میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور طاہرالقادری کے کندھے استعمال ہوئے اور مشہور زمانہ دھرنے دلوائے گئے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے عظیم دوست ملک چائنہ کے صدر کے دورہ پاکستان کو بھی سبوتاژ کروادیا گیا۔ نواز شریف کی تیسری وزارت عظمی کے خلاف سازشوں کا سلسلہ بالآخر پانامہ ڈرامہ کے من گھڑت مقدمہ کے ذریعہ ختم ہوا اور اس کھیل میں نامی گرامی اعلی ترین عہدیداران نے بھرپور ساتھ دیا اور نواز شریف کو اک مرتبہ پھر مسند اقتدار سے ہٹا کر بیٹی اور داماد سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں بھی نواز شریف سمیت خاندان کے افراد کا متواتر جینا حرام کئے رکھا گیا۔ یقینی طور پر نواز شریف کیساتھ ماضی میں پیش آنے والے واقعات ناقابل برداشت و ناقابل معافی ہیں۔ مگر اس وقت جب ریاست پاکستان شدید قسم کے سیاسی و معاشی اور آئینی بحرانوں کا شکار ہوچکی ہے اور مہنگائی، عدم مساوات، عدم برداشت، سیاسی و مذہبی فرقہ پرستی، دہشتگردی کے نہ رکنے والے سلسلہ کی بدولت پاکستانیوں کی زندگیاں بے رنگ ہوچکی ہیں۔ مملکت میں سیاسی لیڈرشپ نام کی کوئی شے نظر نہیں آرہی۔ ریاست پاکستان ظاہری طور پر آئی ایم ایف کی غلامی میں جاچکی ہے۔ ڈالر ، پٹرول و دیگر اشیائے ضروریات زندگی عوام الناس کی پہنچ سے دور ہوچکے ہیں، یہاں تک کہ معاشی حالات حکومت پاکستان کے کنٹرول کی بجائے آئی ایم ایف کے پاس گروی
رکھ دیئے گئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ سیاسی لیڈرشپ اپنے تمام تر باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اکٹھے بیٹھیں۔ جس طرح ماضی میں سیاسی حریف نواز شریف و بینظیر بھٹو نے شدید سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالا اور تاریخی میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ جس طرح عمران خان نے انہی کے بقول پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلی بنوا دیا تھا۔ اور جس طرح ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرنے والے شہباز شریف اور زرداری نے اختلاف بھلا کر جپھیاں ڈال لی تھیں۔ جس طرح زرداری نے قید و بند کی صعوبتوں میں دھکیلنے والے نوازشریف سے صلح کرلی تھی۔ دوسری جانب پابند سلاسل پی ٹی آئی چیئرمین کو بھی یقینی طور پر احساس ہورہا ہوگا کہ بے گناہ فرد کو جیل میں ڈالا جائے تو اسکے احساسات کیا ہوتے ہونگے۔ عمران خان کو بھی چور، ڈاکو کی گِھسی پِٹی کیسٹ کو بند کرنا ہوگا کیونکہ جس سسٹم کے تحت ان کے مخالفین کو جیلوں میں پابند سلاسل کیا جاتا رہا، آج اسی سسٹم کی بدولت عمران خان بطور مجرم جیل میں وقت گزار رہے ہیں۔ یہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ تمام تر اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کیساتھ بیٹھیں اور ریاست پاکستان کو سنگین سیاسی، معاشی اور آئینی بحرانوں سے نکالیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ریاست پاکستان کا حصول بھی سیاسی لیڈرشپ کی بدولت ممکن ہوا تھا اور مشکلات میں گھری ہوئی ریاست کو سیاسی لیڈرشپ ہی بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔ خصوصا پاکستان مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی ، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، اے این پی و دیگر جماعتوں کو آگے بڑھنا ہوگا اور سیاسی ماحول کو سازگار بناتے ہوئے نئے میثاق جمہوریت پر اکٹھا ہونا چاہیے۔ اسی میں ریاست پاکستان اور اس کے باسیوں کی بقا ہے۔

جواب دیں

Back to top button