Column

کسی کو پرکھنے میں جلدی مت کیجیے

تحریر :رفیع صحرائی
انگریزوں کی اندھی تقلید میں ہم نے ان کی روایات اور تہذیب اپنانے میں فخر محسوس کرنا شروع کر دیا اور اپنی خوب صورت تہذیب اور اعلیٰ روایات سے دور ہوتے چلے گئے۔ یہ الگ بات کہ ان کی اندھی تقلید میں ہم کوے بنے نہ ہی ہنس رہے۔ ہم دونوں کے درمیان کی کوئی چیز بن کر رہ گئے۔ انگریز محنتی قوم ہیں۔ وہ اپنے کام اور ڈیوٹی سے مخلص ہوتے ہیں۔ جب کام میں مصروف ہوں تو دوپہر کے کھانے کو گول کرکے ایک آدھ برگر کھا لیتے ہیں اور رات کے کھانے تک گزارا کرتے ہیں۔ برگر کو ہم نے بھی اپنا لیا ہے مگر کچھ اس طرح سے کہ دو دوست جب تین، تین برگر بیک وقت کھا لیتے ہیں تو ان میں سے ایک بولتا ہے۔
’’ یار اب بس بھی کر، گھر چل کر روٹی بھی تو کھانی ہے‘‘
انگریزی کا ایک مقولہ ہے
’’First impression is the last impression‘‘ ( پہلا تاثر ہی آخری تاثر ہوتا ہے)۔
ہم نے اس مقولے کو پلے باندھ لیا اور چند منٹ میں ہی کسی کی شخصیت کے بارے میں جامع تاثر قائم کرنا شروع کر دیا۔ یہ کہنا شروع کر دیا کہ
’’ دیگ کے ذائقے کو جاننے کے لیے ایک چاول چکھنا ہی کافی ہے‘‘
حالانکہ یہ موازنہ کسی طور بنتا ہی نہیں۔ انسان ایک جیتا جاگتا فرد ہوتا ہے۔ حالات کے مطابق اس کی شخصیت میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ سخت غصے میں ہوتا ہے تو کبھی انتہائی پریشان اور غمزدہ، کبھی وہ بے حد خوش ہوتا ہے تو کبھی مایوس و دل گرفتہ۔ اس کی زندگی مختلف پہلوئوں سے عبارت ہے۔ کسی ایک حالت میں دیکھ کر اس کی شخصیت کے تمام پہلوئوں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل واقعہ مددگار ثابت ہو گا۔
’’ ایک آدمی کے چار بیٹے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے بیٹے یہ سبق سیکھ لیں کہ کسی کو پرکھنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے اس نے اپنے بیٹوں کو ایک سفر پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کسی دور دراز علاقے میں انہیں ناشپاتی کا ایک درخت دیکھنے کے لیے بھیجا۔ اس نے ایک وقت میں ایک بیٹے کو درخت دیکھنے کے لیے روانہ کیا۔
باری باری سب کا سفر شروع ہوا۔ پہلا بیٹا سردی کے موسم میں گیا، دوسرا بہار میں، تیسرا گرمی کے موسم میں اور سب سے چھوٹا بیٹا خزاں کے موسم میں وہاں گیا۔
جب سب بیٹے اپنا اپنا سفر ختم کر کے واپس لوٹ آئے تو اس آدمی نے اپنے چاروں بیٹوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور سب سے ان کے سفر کی الگ الگ تفصیل بیان کرنے کو کہا۔ پہلا بیٹا جو جاڑے کے موسم میں اس درخت کو دیکھنے گیا تھا اس نے بتایا کہ وہ درخت بہت بدصورت، ٹیڑھا سا اور جھکا ہوا تھا۔ دوسرا بیٹا اس کی بات کاٹ کر بولا، ’’ نہیں نہیں، وہ درخت تو بہت ہرا بھرا اور سرسبز پتوں سے ڈھکا ہوا تھا‘‘۔ تیسرے نے ان دونوں سے اختلاف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ درخت تو پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کی مہک دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے تینوں بھائیوں سے اختلاف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ناشپاتی کا درخت تو پھلوں سے لدا ہوا تھا اور پھل کے بوجھ سے اس کی ٹہنیاں زمین کو چھو رہی تھیں۔
بیٹوں کی باتیں سن کر باپ مسکرایا اور کہا
’’ تم چاروں میں سے کوئی بھی غلط نہیں کہہ رہا۔ سب اپنی جگہ درست ہیں‘‘۔
بیٹے اپنے باپ کی بات سن کر حیران ہوئے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔
باپ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا، ’’ تم کسی بھی درخت یا شخص کو صرف ایک موسم یا حالت میں دیکھ کر اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ یا رائے قائم نہیں کر سکتے۔ کسی کو جانچنے کے لیے تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے۔ انسان کبھی ایک کیفیت میں ہوتا ہے تو کبھی کسی دوسری کیفیت میں۔ اگر درخت کو جاڑے کے موسم میں تم نے بے رونق دیکھا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر کبھی پھل نہیں آئے گا۔ اسی طرح اگر تم کسی شخص کو غصے یا بدعملی کی حالت میں دیکھ رہے ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شخص ضرور برا ہی ہو گا‘‘۔
باپ نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’’ کبھی بھی جلد بازی میں کسی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرو جب تک اس کو اچھی طرح جانچ نہ لو۔ کسی کو اسی وقت سمجھا یا پرکھا جا سکتا ہے جب یہ تمام موسم گزر جائیں۔ اگر تم سردی کے موسم میں ہی اندازہ لگا کر نتیجہ اخذ کر لو گے تو گرمی کی ہریالی، بہار کی خوبصورتی اور بھرپور زندگی سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہ جائو گے۔ اس سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ کسی ایک دکھ یا پریشانی کی وجہ سے اپنی زندگی کی باقی خوشیوں کو دائو پر مت لگائو۔ زندگی کے ایک برے موسم کو بنیاد بنا کر باقی زندگی کو مت پرکھو۔ وقت ایک چلتا پہیہ ہے، اوپر والی سائیڈ نیچے اور نیچے والی اوپر ضرور جائے گی‘‘۔
بیٹوں کو باپ کی بات اچھی طرح سمجھ میں آ گئی۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں خیر و شر کا مادہ رکھا ہے۔ اس کی کیفیات میں بھی مختلف موسموں کی طرح اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ ہمیں حسنِ زن رکھتے ہوئے بدگمانی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کسی ایک کیفیت میں مبتلا شخص کو دیکھ کر اس کی پوری شخصیت کو پرکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button