کھیل سمجھ میں آجائیگا

تحریر : سیدہ عنبرین
ملک بھر میں بجلی بحران نے زندگی معطل کر رکھی ہے، یہ بحران دو طرح کا ہے، بعض علاقوں میں چوبیس گھنٹے میں قریباً نصف وقت بجلی بند رہتی ہے، کبھی ایک گھنٹے کے بعد ایک گھنٹہ، کبھی یہ دورانیہ اس سے دگنا ہوجاتا ہے جبکہ مرمت کے نام پر بجلی بند ہونا ایک مختلف عذاب ہے، دوسری طرف بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی کے بل میں مضحکہ خیز ٹیکسز کا شامل کیا جانا ہے۔ کراچی سے خیبر تک پہیہ جام ہڑتال سے ثابت ہوگیا کہ یہ دکھ کسی ایک شہر کے بسنے والوں کا نہیں ملک گیر ہے، لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت اور بالخصوص اس کے سربراہ اس بحران کو حل کرنے یا ریلیف دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ برسوں پہلے جنرل پرویز مشرف نے صحافیوں سے ایک ملاقات میں اور بعد ازاں ایک انٹرویو میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ بجلی مہنگی کیسے ہوتی ہے، ان کی گفتگو کا کلپ آج بھی دستیاب ہے، انہوں نے بتایا کہ پاور پروڈیوسر اس کام میں اربوں روپے ماہانہ کماتے ہیں، لہذا انہیں کوئی پراجیکٹ حاصل کرنے کیلئے اربوں روپے رشوت دینا پڑے تو انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی، جنرل مشرف نے واضح طور پر بتایا کہ کسی پاور پروڈیوسر کو ٹیرف میں صرف ایک سینٹ زیادہ دے دیں تو وہ بخوشی ایک ارب روپیہ رشوت دینے پر تیار ہوجاتا ہے، اب اندازہ کیجئے کہ جن لوگوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں مارکیٹ ریٹ سے بہت زیادہ مہنگے داموں بجلی خریدنے کے معاہدے کئے۔ انہوں نے اس کے عوض میں لاہور انار کلی کے بانو بازار سے فقط دہی بھلے یا گول گپے نہیں کھائے بلکہ اربوں روپے کمائے، ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بجلی بحران پر کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں عوام کے دکھ کو سمجھتے ہیں، وہ اس حد تک تو ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ یہ دکھ ان ہی کا دیا ہے، پس ان سے بہتر اس دکھ کو کون سمجھ سکتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس دکھ دینے کے بدلے انہوں نے اپنے اور اپنی اولاد کیلئے ہزار سکھ خریدے، اربوں روپے کے اثاثے ملک کے اندر اور اربوں ڈالر کے اثاثے ملک سے باہر بنائے۔ پکڑے جانے پر عدالتوں کے روبرو آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آئے۔ اپنی حلال آمدن سے اثاثوں کے ڈھیر کیسے بن گئے، اس ایک سوال کا جواب ان کے پاس نہ تھا، نہ ہی وہ روپیہ ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے کا طریقہ بتا سکے، ایک موقع پر ایک معزز عدالت کے جج صاحب نے ایسے ہی ایک ملزم کے وکیل سے پوچھا کہ اگر آپ کے موکل کے پاس منی ٹریل موجود نہیں ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ یہ روپیہ اونٹوں کی کمر پر لاد کر بیرون ملک بھیجا گیا اور اس سے جائیدادیں بنائی گئیں، ملزم کے وکیل نے شرم سے سر جھکایا اور بولے جی ایسے ہی سمجھ لیا جائے۔ موکل کو سزا ہوئی تو زمین و آسمان یہ کہہ کر ایک کر دیئے گئے کہ تمام مقدمات سیاسی ہیں، مقدمات سیاسی تھے تو اپنی بے گناہی اپنی منی ٹریل تو پیش کرتے، کھودا پہاڑ تو فقط ایک قطری خط نکلا۔ مخلوط اقتدار حاصل کرنے کے بعد عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوئی ایک کام نہیں جو گنوایا جاسکے البتہ اپنے تمام مقدمات ختم کرا لیے گئے۔ اب پانچویں مرتبہ اقتدار کے کھیل میں شرکت اور اس کے حصول کیلئے سب کچھ تہہ و بالا کرنے کی تیاری جاری ہے، ایک اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اگر مسائل کا حل نواز شریف صاحب کے پاس ہے تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ یہ حل اپنے بھائی شہباز شریف صاحب کو بتا دیتے، قوم خوشی سے نہال اور ان کے وطن واپس آنے سے پہلے ہی خوشحال ہوجاتی۔ اسے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کیلئے مہنگے پھول نہ خریدنا پڑتے، واضع ہوا کے مسائل حل کرنے کا جھانسا دے کر ایک مرتبہ پھر اقتدار حاصل کیا جائے اور اپنے لئے کچھ اور سکھ خریدے جائیں۔ بجلی بحران میں گزشتہ تیس برس میں ہر سیاسی حکومت نے اپنا حصہ ڈالا، پاکستان اور اہل پاکستان کے مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خوفناک شرائط پر
معاہدے کئے گئے، جن سے سب سے ہولناک شرط یہ تھی کہ ہم پاور پروڈیوسرز کی بنائی گئی بجلی استعمال کریں یا نہ کریں، انہیں اس کی مکمل ادائیگی کریں گے، یہ معاہدے طویل المدت ہیں، آنے والے پچاس برس میں بھی ان سے جان نہ چھوٹے گی، اہل پاکستان کا لہو نچوڑ کر ان پاور پروڈیوسر کی چہرے کی سرخی بنتا رہے گا، یہ معاہدے 2059ء تک چلتے رہیں گے، بعض معاہدے ایسے بھی ہیں جو ’’ ری نیو ‘‘ ہوسکتے ہیں۔ پاور پروڈیوسرز کے من پسند حکمران جب اقتدار میں واپس آئینگے تو یہ معاہدے ری نیو بھی ہوسکتے ہیں۔ صرف ان معاہدوں اور ان کی آمدن کو دیکھ لیں تو سمجھ آجائے گی کہ ہر آنے والا الیکشن مہنگا کیوں ہوتا ہے اور اس میں کروڑوں روپیہ کیوں جھونکا جاتا ہے، مسلم لیگ ن کے مختلف ادوار حکومت میں ایک سو تئیس معاہدے کئے گئے، جن میں سے 99نواز شریف، 18خاقان عباسی اور چھ شہباز شریف نے کئے، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 37معاہدے کئے گئے، جن میں سے 27معاہدے یوسف رضا گیلانی اور دس معاہدے راجہ پرویز اشرف نے کئے، عمران خان نے 29معاہدے کئے، شوکت عزیز 21، ظفر اللہ جمالی 5اور چودھری شجاعت حسین نے ایک معاہدہ کیا۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں 214پرائیویٹ ادارے بجلی پیدا کر رہے ہیں تو سرکاری ادارے کیا کر رہے ہیں، ہر حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر سے دھڑا دھڑ معاہدے کئے، حکومتی زیر انتظام پراجیکٹ لگانے پر توجہ کیوں نہ دی گئی، کیا صرف اسی لئے کہ اس میں صنعت کا پہلو نہ تھا، سیاست میں کتنی عبادت ہے صرف بجلی کی پیداوار اس کی ترسیل اور روز افزوں کی قیمتوں پر نظر ڈال لیں، سب کھیل سمجھ میں آجائے گا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک چینی چار آنے مہنگی ہونے پر شروع ہوئی تھی اقتدار کو لے بیٹھی، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا دو مرتبہ اقتدار جانے میں مہنگائی کا بڑا ہاتھ تھا، یونہی ان کے جانے پر مٹھائیاں نہیں بٹیں۔





