Column

ہنوز دلی دور است

شکیل امجد صادق
جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو کام یاب وکیل، بزنس مین اور سیاست دان تھے، وہ دہلی، الٰہ آباد اور کلکتہ میں پریکٹس کرتے تھے اور 1900ء کے شروع میں لاکھوں روپے ماہانہ کماتے تھے، وہ دوبار آل انڈیا کانگریس کے صدر بھی رہے، بڑے نہرو صاحب خود سیاست دان تھے۔
مگر وہ اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے، وہ انہیں صرف وکیل دیکھنے کے خواہاں تھے، انہیں لاٹھی اور جیل سے بچائے رکھنا چاہتے تھے۔ والد نے بیٹے کو شاہی خاندان کی طرح پڑھایا، نوابوں جیسی پرورش کی تھی، کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور یہ جب بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آگئے تو انہیں الٰہ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دئیے لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے، والد نے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو اس نے ایک دن جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ، جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دئیے اور ان کی جگہ کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دئیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی، جواہر لال کے کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیا گیا، فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا تم کل سے صاحب زادے کو جیل کا کھانا دینا شروع کر دو اور بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا گیا، جواہر لال نہرو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے، بڑے نہرو صاحب اس وقت سٹڈی میں ٹالسٹائی کا ناول ’’ وار اینڈ پیس‘‘ پڑھ رہے تھے، بیٹے نے پوچھا ’’ آپ مجھ سے خفا ہیں‘‘ موتی لال نے نظریں کتاب سے اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا ’’ میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا‘‘ چھوٹے نہرو نے پوچھا ’’ پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا‘‘ والد نے بیٹے سے کہا ’’ صاحب زادے تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل، بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو۔ دوسرا غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں، تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہیے، تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو تم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا، میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے چناں چہ تم آج سے وہ کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے پیسے خرچو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں‘‘ جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اور پھر مرنے تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں جیسا سادہ کھانا کھایا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈر شپ کا فقدان ہے، پوری دنیا میں لیڈروں کا تعلق عموماً بڑے گھرانوں سے ہوتا ہے، یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں، ان کا گلوبل ایکسپوژر بھی ہوتا ہے اور یہ اندر سے رجے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ جب سیاست میں آتے ہیں تو یہ سادگی اور غریب پروری کا تحفہ ساتھ لے کر آتے ہیں، یہ عام آدمی کی صرف باتیں نہیں کرتے یہ عام آدمی نظر بھی آتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے، ہم ’’ ڈرٹی پالیٹکس‘‘ کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں۔ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں ضرور کرتی ہیں لیکن ان کے لیڈروں کا لائف سٹائل اور ان کی شخصیت ان باتوں سے میچ نہیں کرتی ۔
ہنسوں کا ایک جوڑا اڑتے گاتے بہت دور نکل آیا۔ یہ ایک ویران و بے آب و گیاہ جگہ تھی۔ نر ہنس نے اپنی مادہ سے کہا شام ڈھل رہی ہے۔ رات کسی طرح یہاں ہی بسر کر لیتے ہیں۔ صبح اپنے دریائی مسکن کی طرف واپس چلتے ہیں۔ انہوں نے ایک سوکھے درخت کے نیچے بسیرا کر لیا۔
رات ایک الو درخت پر آکر بیٹھ گیا۔ اس نے انتہائی بھیانک آواز میں رونا چلانا شروع کر دیا۔ مادہ ہنس نے اپنے شوہر سے کہا اس حالت میں تو رات گزارنی مشکل ہے۔ شوہر نے کہا رات گہری ہے۔ گزارا کرو صبح سویرے سویرے نکل جائیں گے۔ اب سمجھ آگئی ہے اس جگہ اتنی وحشت کیوں برس رہی ہے۔ یہاں الو چیختے روتے ہیں۔ الو یہ سب سن رہا تھا۔ اس نے اور زیادہ رونا شروع کر دیا۔
صبح نر ہنس نے اپنی مادہ سے کہا چلو نکلیں یہاں سے۔ الو اچانک نیچے آیا اور کہا ایسے کیسے بھائی۔ تم میری بیوی کو نہیں لے جا سکتے۔ ہنس نے کہا الو کہیں کہ یہ ہنس ہے۔ میری بیوی لیکن الو نے مان کر نہ دیا۔ شور مچایا اور ویرانے کی ساری مخلوق جمع ہوگئی۔ مقدمہ گدھ ججز کے سامنے پیش ہوا۔ ایک گدھ نے دوسرے سے کہا الو ہماری برادری کا ہے۔ اس نے یہاں ہمارے ساتھ رہنا ہے۔ ہنس تو مسافر ہے۔ اس کے حق میں فیصلہ کیوں کریں؟
اور فیصلہ ہو گیا۔ گدھ عدالت نے کہا مادہ ہنس الو کی بیگم ہے اور نر ہنس کو ملک بدر کیا جاتا ہے۔ نر ہنس روتے ہوئے روانہ ہوگیا۔ پیچھے سے الو نے آواز لگائی۔ اپنی بیگم کو لے کر نہیں جائو گے۔ ہنس نے مایوسی سے کہا فیصلہ تمہارے حق میں ہوگیا ہے۔ الو نے ہنس کر کہا میں نے ہنس کا کیا کرنا یہ تو بس تم رات کو کہہ رہے تھے چونکہ یہاں الو روتے ہیں تو یہ علاقہ غیر آباد و وحشت زدہ ہے۔ میں نے تمہیں یہ بتانا تھا الو یہاں اس لئے روتے ہیں کہ یہاں فیصلے کرنے والے گدھ ہیں۔ ہم ابھی تک بجلی کے بلوں اور پٹرول اور مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں اور وہ چاند پر پہنچ گئے ہیں کیونکہ وہاں فیصلے گدھ نہیں کرتے۔

جواب دیں

Back to top button