ColumnImtiaz Aasi

نگران حکومت کی مشکلات اور عمران خان

امتیاز عاصی
شہباز حکومت کا چھوڑا ہوا بجلی کے میں بلوں میں اضافے کا تحفہ نگران حکومت کو ورثے میں ملا ہے ۔قریہ قریہ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں۔شہباز شریف تجربہ کار سیاست دان تو تھے ہی ذہین بھی نکلے اور جولائی کے بلوں میں اضافہ کرکے خود لندن جا بیٹھے ہیں۔تعجب ہے مسلم لیگ نون کے بہت سے رہنما احتجاجی عوام کے ساتھ کھڑے ہیںجس کا مقصدیہ بتانا مقصود ہے بجلی کے بلوں میں اضافے کا مسلم لیگ نون سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ نگرانوں کا کیا دھرا ہے۔عمران خان نے سیاسی جدوجہد میں اور کچھ کیا یا نہیں البتہ عوام کو باشعور کر دیاجس سے عوام کو فریب دینے والے سیاست دانوں کی مشکلات میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے شائد اسی لئے بہت سے سیاست دان انتخابات کا کسی نہ کسی بہانے التواء چاہتے ہیں۔اس سے قبل کہ نگران حکومت آئندہ انتخابات کی تیاری کے لئے حالات سازگار کرتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے والی پی ڈی ایم کی جماعتوں نے بجلی کے بلوں میں اضافے کا محاذ کھول دیا ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرتے کرتے شہباز حکومت نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہی۔لندن میں اخباری نمائندوں نے شہباز شریف سے سوالات کرنے کی کوشش کی تو ان کا جواب تھا وہ بیرون ملک آئے ہوئے ہیں لہذا کوئی بات نہیں کریں گے۔
بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف بعض شہروں میں لوگ خودکشیوںپر اتر آئے ہیں پر پتھر دل سیاست دانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ مریم نواز نے عوام سے ایک نیا جھوٹ بولا ہے نواز شریف ہی عوام کو مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں اضافے سے بچائیں گے۔ سوال ہے نواز شریف خود کو بچانے کے لئے ملک چھوڑے ہوئے ہیں وہ عوام کو مشکلات سے کیسے نجات دلائیں گے؟نگران وزیراعظم انوارالحق کاکٹر نے بجلی کے بلوں میں اضافے اور اس کے خلاف عوام کے احتجاج اور مفت بجلی کے استعمال کا بھی نوٹس لیا ہے۔افسر شاہی کے علاوہ واپڈا ملازمین مفت بجلی استعمال کر رہے ہیں کیا نگران وزیراعظم بجلی کے مفت استعمال کو روکنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟آئی ایف ایم کی کڑی شرائط کے پیش نظر نگران حکومت نے بجلی کے بلوں کو کم کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔اس سے پہلے کہ بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف عوام کا یہ احتجاج بڑی تحریک کی شکل اختیارکرلے نگران حکومت کو کسی نہ کسی طریقہ سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو کم کرنے کی راہ نکالنی چاہیے ورنہ عوام کا احتجاج رکے گا نہیں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ ملک بھر کی تاجر تنظیموں نے بلوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کی کال دے دی ہے۔ اس بات کا قومی امکان ہے جمعتہ المبارک کو تاجر تنظیموں کے احتجاج کے ساتھ عوام بھی اس اضافے کے خلاف نکلیں گے۔عوام کو ریلیف دینے کے لئے تجویز آئی ہے بلوں کی اقساط کر دی جائیں سوال ہے بلوں کی اقساط تو پہلے بھی ہو جایا کرتیں تھیں اس میں نگران حکومت کا کیا کمال ہو گا۔دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان کو اٹک جیل میں ملنے والی سہولتوں بارے اٹارنی جنرل نے رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرادی ہے۔ عمران خان کی خواہش پر دیسی گھی میں تیار مٹن اور چکن فراہم کر دیا گیا ہے۔جہاں تک ہم نے جیل مینوئل پڑھا ہے اس میں ناشتے میں نہ تو آملیٹ اوردہی کے علاوہ پھل ہوتے ہیں۔ بی کلاس کا قیدی اپنے خرچ پر ایسی چیزیں منگوا سکتا ہے لیکن اس طرح کا تاثر دیا گیا ہے جیسے جیل حکام عمران خان کو یہ اشیاء سرکاری خرچ پر فراہم کر رہے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے گزشتہ دور میں بی کلاس اور سی کلاس کا کھانے کا معیار بہتر کرکے ایک کر دیا گیا تھا وگرنہ اس سے پہلے بی کلاس کے قیدیوں کو خشک راشن فراہم کیا جاتا تھا ۔ ایسے ملزمان جن کے مقدمات زیر سماعت ہوتے ہیں حوالاتی کی حیثیت سے وہ ملاقات کے روز گھر سے پکا ہوا کھانا منگوا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس قیدیوں کو گھر سے پکا ہوا کھانا منگوانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جہاں تک بی کلاس کے قیدیوں کو اس سلسلے میں ملنے والی سہولت کا تعلق ہے وہ ملاقات کے روز جو چاہیں پکوا کر گھر سے منگوا سکتے ہیں۔قیدی کی حیثیت سے سابق وزیراعظم عمران خان ملاقات کے روز دیسی گھی سے تیار مٹن اور چکن منگوایاہے تو اس میں اچھنبے کی کیا بات ہے۔تعجب ہے جیل حکام نے عمران خان پر جو اضافی سکیورٹی لگائی ہوئی ہے وہ بھی عمران خان کے کھاتے میں ڈالی ہے حالانکہ اضافی سیکورٹی حکومت کی اپنی ضرورت ہے ۔حیرت ہے عمران خان کے سیل کے قریب دیگر سیلوں کو خالی حکومت نے اپنے مقاصد کے لئے رکھا ہے نہ کہ عمران خان کے فائدے کے لئے رکھا ہے۔خبروں سے ظاہر ہوتا ہے عمران خان کے گرد سخت پہرہ لگا ہوا ہے جیل حکام اس قدر محتاط ہیں وہ کسی سے علیک سلیک نہیں کرتے کہیں ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہو جائے ۔ ہمارے مشاہدات کے مطابق جیلوں میں سب اچھا دے کر کچھ بھی منگوایا جا سکتا ہے ۔ایک انسپکٹر جنرل کے عہدے کا افسر حوالاتی کے فرار ہونے پر جیل کے میڈیکل افسر کو بدل دیتا ہے لیکن جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو نہیں بدلتا جس کی وجہ وہ سپرنٹنڈنٹ بہت زیادہ سب اچھا کیا کرتا تھا۔ ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں جہاں ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے ۔جیلوں میں سب اچھا نہ کرنے والوں کی زندگی اجیران کر دی جاتی ہے جب کہ سب اچھا کرنے والے حوالاتی اور قیدی مراعات کے ساتھ رہتے ہیں۔سب اچھا کرنے والے قیدیوں اور حوالاتیوں کے نزدیک جیل مینوئل کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔افسوس ہے کوئی حکومت جیلوں میں مبینہ کرپشن کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کر سکی۔ کہتے ہیں عمران خان سینٹرل جیل راولپنڈی آنے کا خواہاں ہے نواز شریف اڈیالہ جیل کی بی کلاس میں رہ سکتا ہے تو عمران خان کے رہنے پر قدغن کیوں ہے؟ عام طور کہا جاتا ہے جیلیں اسی کی ہوتی ہیں جس کے پاس مال پانی وافر ہوتا ہے، شائد عمران خان کے پاس نواز شریف کے مقابلے میں مال پانی کم ہے۔

جواب دیں

Back to top button