مفت خور مافیا

سید عنبرین
دنیا کے کسی بھی ملک چلے جائیں معاشی حیثیت کے اعتبار سے آپ کو تین طبقے ملیں گے۔ غریب، متوسط اور امیر، دو دہائیوں سے ان میں ایک نئے طبقے کا اضافہ ہوا ہے، یہ طبقہ بے حد امیر افراد کا ہے، یہ اس قدر دولت کے مالک ہیں کہ شمار کرنے والی مشینیں اس کا شمار کرتے کرتے تھک جاتی ہیں۔ اس دولت میں دن کے ہر لمحے اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پہلے تین طبقوں سے تعلق رکھنے والوں کی کہانی دنیا بھر میں ایک سی ہے، غریب خوشیوں اور مراعات کیلئے ترستا ہے، متوسط بہ مشکل اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھ پاتا ہے، امیر زندگی کی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ تینوں طبقات عموماً مثبت ذرائع سے کماتے کھاتے ہیں۔ جبکہ چوتھے طبقے کے نزدیک مثبت منفی، حرام حلال، جائز ناجائز جیسے اصول نہیں ہوتے، ان کا اصول دولت کا حصول، پھر اس میں اضافہ اور اس دولت کے بل بوتے پر معاشرے میں اعلیٰ مقام، سرکاری یا غیر سرکاری منصب حاصل کرنا خواہش اول ہوتی ہے۔ جیسے وہ نہایت آسانی سے پورا کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں چار نہیں، چار سو طبقات ہیں، ان میں سے کچھ ہی کا ذکر ہو سکے گا، سب کے ذکر کیلئے کتاب لکھنا ہو گی۔
ایک طبقہ ایسا ہے جس میں غریب، متوسط اور امیر افراد شامل ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ انہیں اسی ملک کا شہری ہونے کے ناطے زندگی کی بنیادی سہولتیں مناسب قیمتوں پر مہیا کی جائیں، اس طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ رزق حلال کماتے ہیں، انکم ٹیکس ادا کرنے کے بعد یہ روزمرہ ضرورت کی جو چیز بھی خریدتے ہیں اس پر ایک مرتبہ پھر ٹیکس ادا کرتے ہیں، ریاست اپنے شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات مہیا نہیں کر سکی، جن میں تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، خالص خوراک اور زندگی کا تحفظ شامل ہے۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری یہ تمام سہولتیں زیادہ رقم خرچ کر کے خود حاصل کرتے ہیں۔ خالص دوائیں اور خوراک اب خواب ہوگئے ہیں، یاد رہے یہ طبقہ تنخواہ بعد میں گھر لاتا ہے، اس کی تنخواہ سے پہلے انکم ٹیکس مہیا کر لیا جاتا ہے، اس طبقے کی دو معصوم سی خواہش ہیں، اول اس سے اتنی ہی رقم وصول کی جائے جتنی وہ بجلی استعمال کرتے ہیں، جتنی وہ گیس جلاتے ہیں، دوئم حکومت اپنے دیگر اداروں کی ناکامیاں چھپانے اور ان کے خرچے عوام کی جیبوں پر ڈالنے سے گریز کرے۔
دونوں کام نہایت آسانی سے ہوسکتے ہیں لیکن کوئی کرنے کو تیار نہیں، اس طبقے سے تعلق رکھنے والے چاہتے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ ہم اپنی استعمال شدہ بجلی اور گیس کے بل بروقت ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بل سے غیر ضروری اور ناجائز رقوم نکال کر بل بنایا جائے، ہماری آنکھوں میں مرچیں ڈال کر کبھی ٹی وی فیس کے نام، کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ کے بہانے اور کبھی اپنی چوری چھپانے کیلئے اور ہر مرتبہ سلیب فراڈ کے ذریعے ہمیں نہ لوٹا جائے۔
ملک میں بجلی بل بحران بڑھا تو ملک کے کونے کونے سے آواز اٹھی کہ مفت خوروں کو بجلی، گیس اور پٹرول مفت فراہم کرنا بند کیا جائے۔ اس مطالبے میں شدت آرہی ہے یہ مطالبہ ہر اعتبار سے جائز ہے، اس کے جواب میں مفت خوروں کے جتھوں نے کہا ہے کہ اگر مفت خوروں کی بجلی، گیس اور پٹرول کی سہولت واپس لی گئی تو اس میں ملک کا بہت نقصان ہوگا۔ حکومت کو مالی فائدہ ہر گز نہ ہوگا جبکہ اس مفت خوری کو روکنے سے ملک میں کرپشن بڑھے گی۔ مفت خورہ گروپ نے اپنے دل کی بات زبان تک لانے کے بعد ایسے میڈیا تک پہنچایا ہے بلکہ دھمکی دی ہے کہ اگر ان سے یہ سہولتیں واپس لی گئیں تو وہ کرپشن کریں گے۔ انہوں نے اپنے انداز میں ملکی قوانین کو جوتے کی نوک پر نہیں بلکہ اس سے ذرا اور اوپر کہیں لکھ دیا ہے۔ اس دھمکی میں ایک اور دھمکی بھی پوشیدہ ہے کہ اگر حکومت میں ہمت ہے تو یہ سہولت واپس لیکر دکھائے۔
اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ ہمارے عدالتی نظام کے پہرے داروں کو سوچنا چاہیے کہ ایک شخص قتل نہیں کرتا لیکن اس کا ارادہ سامنے آجاتا ہے کہ وہ کسی کو قتل کرنے کا ادارہ رکھتا ہے تو اسے ارادہ قتل کی دفعات کے تحت گرفتار کیا جاسکتا ہے، مفت خورہ گروپ نے ارادہ انداز میں یوں کیا ہے جیسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں سب کچھ بیچ چوارہے آکر کیا ہے۔
جس طرح کچھ لوگوں کی دور کی نظر کمزور ہوتی ہے اسی طرح انکی دور کی سماعت کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ قریب کی سماعت بھی کمزور ہوتی ہے۔ آپ نے اکثر ایسے افراد کو قریب بیٹھے شخص کی بات سننے کیلئے اپنے کان پر ہاتھ رکھ کر سنتے دیکھا ہوگا۔ اب ایسا کرنے والے بابے نظر نہیں آتے، اب کان پر ہاتھ رکھ کر سننے کا فیشن بھی نہیں رہا، اس کی جگہ آلہ سماعت لگا لیا جاتا ہے کہ ہم نے نہیں سنا، اگر سنا ہے تو ہماری سمجھ سے نہیں آیا، وفاقی حکومت کے امتحان کا وقت ہے، وہ ملک بھر سے بجلی بل استحصال اور فراڈ کے خلاف اٹھنے والی آوازیں سنتی ہے یا مفت خوروں کی خواہش پر کان دھرتی ہے۔ اسی ایک امتحان میں سماعت اور نظر کے ساتھ ساتھ عقل کا امتحان بھی ہوجائے گا۔ وزیر اعظم تو ریلیف دینا چاہتے ہیں، مفت خور مافیا شاہد ایسا نہ ہونے دے۔





