Column

’’ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے‘‘

محمد عبد اللہ
ایک دوست سے پاکستان کے مختلف ایشوز پر بات ہورہی تھی۔ گورنس، خارجہ سے ہوتے ہوتے بات عوامی رویے اور مزاج پر آئی اور ان میں کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیات اور افکار پر بات ہوئی۔ میرا کہنا تھا کہ پاکستان میں جہاں دیگر مسائل و معاملات ہیں وہاں ایک بڑی چیز سیاسی و سماجی شعور اور فکر کا نہ ہونا ہے جوکہ کسی بھی معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی تنقید برائے تنقید اور اختلاف برائے اختلاف کا باعث تو بنتی ہے اصلاح اور تعمیر ترقی کا باعث کبھی بھی نہیں بن سکتی۔
اگرچہ ڈیجیٹل میڈیا وسیع تر استعمال کے ذریعے معلومات کے تیز ترین بہائو نے ہر چیز کو جہاں شدید متاثر کیا ہے وہیں آگہی کے در بھی کھولے ہیں لیکن اچانک در آنے والے معلومات کے اس سیل رواں نے ہماری سیاسی اور سماجی فکروں اور رویوں کو مستحکم کرنے یا درست سمت میں گامزن کرنے کی بجائے ذہنوں اور افکار کو پراگندہ ہی کیا ہے۔ اس بہائو کے سامنے ہمارے نام نہاد اور مصنوعی سیاسی و سماجی ڈھانچے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے اور بری طرح سے ایکسپوز ہوکر رہ گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی و سماجی ڈھانچے بجائے کسی سسٹم یا نظریہ کے مصنوعی اور بے ترتیب مفاداتی بنیادوں پر کھڑے تھے جو اس سیل رواں کے سامنے بہہ گئے ہیں۔
ڈیجیٹل میڈیا کے بکثرت اور بے دریغ استعمال نے جہاں ذہنوں اور افکار کو بری طرح سے متاثر کیا ہے، وہیں اس ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال نے سماجی، اخلاقی اور خاندانی اقدار و روایات کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل میڈیا نے معاشرے کو ڈپریشن، فرسٹریشن اور عدم برداشت جیسے امراض سے بھی ہم آہنگ کرایا ہے، کیونکہ معلومات کا بے ہنگم بہائو یقینی طور پر ہمارے دماغ اور اعصاب شدید متاثر کرتا ہے۔ خوشی، غم، پریشانی کی ملی جلی خبریں اس قدر تیزی سے ہمارے دماغ پر حملہ آور ہوتی ہیں کہ دماغ کو سوچنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ کس خبر پر خوش، کس پر غم کا اظہار کرنا اور کس پر پریشان ہونا کیونکہ اس قدر تیزی سے اوپر تلے یہ معلومات ہمارے تک پہنچ رہی ہوتی ہیں کہ ہر سیکنڈ کے کئی حصوں میں ہماری سکرین سکرول ہورہی ہوتی ہے اور پوسٹ پچھلی سے بالکل اور نوعیت اور کیفیت کی ہوتی ہے۔
معلومات کے جس سیلابی ریلے اور اس کی بنیاد پر جن بے لاگ تبصروں کو ہم سیاسی شعور اور فکر کا نام دیتے ہیں وہ دراصل ذہنی پراگندگی ہے کہ جس میں اپنی پسندیدہ ’’ چیز‘‘ سے انتہا کی وابستگی اور اس کے سوا باقی ہر چیز سے نفرت ہے۔ یہ بنیادی طور پر ’’ فیورٹ ازم ہے، سیاسی شعور اور فہم ہرگز بھی نہیں ہے ‘‘۔ فیورٹ ازم کی اس بیماری کا بڑا نقصان یہ ہے کہ جس میں بلاوجہ کی نفرتیں اور کدورتیں جنم لیتی ہیں۔ اس میں اگر میری فیورٹ شخصیت، ادارے یا پارٹی کا برا اور نامناسب کام بھی تو میرے نزدیک وہ اچھا ہے کیونکہ میری فیورٹ شخصیت، ادارے یا پارٹی کا ہے اور مخالف پارٹی یا شخصیت کا اچھا کام بھی میرے نزدیک صرف اس لیے برا ہے کہ وہ میری پسندیدہ نہیں ہے. انہی منفی رویوں اور بی لاگ تبصروں سے شدید عدم برداشت اور نفرت ہمارے معاشرے میں رچ بس چکی ہے۔
اس کی بیشتر وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن چند ایک بنیادی وجوہات ہیں جن میں سے سرفہرست کسی مضبوط سیاسی ڈھانچے کا نہ ہونا ہے۔ سیاسی ڈھانچے سے مراد رائج الوقت ہمارا ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ سیاسی نظام نہیں بلکہ وہ سیاسی ڈھانچہ ہے کہ جس میں پالیسیاں بنتی بھی ہیں، لاگو بھی ہوتی ہیں اور کئی دہائیاں جاری بھی رہتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ملک و معاشرے فیض یاب بھی ہوتے ہیں اور سیاسی تربیت کے نتیجے میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ ہمارے رول ماڈلز یا وہ شخصیات، جماعتیں یا ادارے ہیں کہ جن کا ہر اچھا برا ہمارے لیے فیورٹ ازم کی بنیاد پر ’’ دین‘‘ ٹھہرتا ہے۔ اس فیورٹ ازم کی بنیاد پر ہم کسوٹی پر پرکھتے تو ضرور ہیں لیکن دوسروں کے افعال و کردار اور افکار کو نہ کہ اپنے افکار و کردار کو پرکھیں۔ یہ بھی اس لیے ہوتا کہ جن کو ہم رہبر و رہنما سمجھ رہے ہوتے ہیں ان میں بھی یہ چیز عنقاء ہوتی ہے جس کی وجہ سے تربیت تو ہوتی ہے لیکن منفی زیادہ ہوجاتی ہے۔
تیسری بڑی اور بنیادی وجہ معلومات کے اس تیز تر سیلابی ریلے کو آنکھیں بند کرکے کلی طور پر اپنے اندر انڈیلنا اور بنا کسی جانچ پرکھ کے اس کو اگل دینا شدید نقصان کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ پراپیگنڈے کے اس دور میں ہم تک پہنچنے والی معلومات میں سے اسی فیصد سے زیادہ’’ ڈیزائنڈ‘‘ ہوتی ہیں اور جب ہم بلا تحقیق ان کو آگے انڈیل دیتے ہیں تو اس سے معاشرے میں منافرت، عدم برداشت اور نفرت جنم لیتی ہے۔
ہمیں ضرورت ہے ایسے سیاسی ڈھانچے کی، ایسی جماعتوں اور اداروں کی، ایسے افراد اور شخصیات کی، ایسے سیاسی کارکنان اور فالورز کی کہ جن کا قبلہ و کعبہ کوئی شخصیت، خاندان، ادارہ یا پارٹی نہیں بلکہ ملک و قوم ہو۔ جب ہم نے سیاسی شعور اور فہم کی اس پہلی سیڑھی پر قدم رکھ لیا تو یقین جانیے اگلا سفر نہایت سہل ہوجائے گا۔

جواب دیں

Back to top button