Column

بجلی کے بل ’ بے مہار مہنگائی‘ کہیں دیر نہ ہو جائے؟

رائو غلام مصطفیٰ
عام انتخابات 2018ء کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد عدم اعتماد کے نتیجے میں اپوزیشن جماعتوں کے الائنس سے بننے والی پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا تو عوام کو بدترین تاریخی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا، کہا جا سکتا ہے کہ سولہ ماہ اقتدار میں رہنے والی پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کسی سوراخ سے ریلیف کا ٹھنڈا جھونکا عوام کو میسر نہ آیا۔ عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کرنے والی پی ڈی ایم حکومت کی گورننس کی کمزوریاں تھیں کہ عام آدمی کے معاشی حالات ہموار نہ ہو سکے اور مہنگائی نے پچاس سالہ تاریخ کے ریکارڈ توڑ دئیے۔ اس کمر شکن مہنگائی میں عام آدمی کی قوت خرید جواب دے گئی۔ پی ڈی ایم حکومت کے عوام کو ریلیف دینے کے بیانات محض دعوے ثابت ہوئے۔ پٹرول، ڈالر، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں جس برق رفتاری کے ساتھ اضافہ ہوا ہے یہ بھی تاریخی ریکارڈ پی ڈی ایم کی حکومت جاتے جاتے اپنے جھومر میں سجا کر رخصت ہوئی۔ پٹرولیم مصنوعات، ڈالر اور بجلی کی قیمتوں میں بے مہار اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان عذاب بن کر ٹوٹا۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل کے نتیجے میں حکومت نے مہنگائی کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا، مہنگائی کے باعث عوام بے حال ہو گئے۔ ملک میں پہلے ہی صنعت کا پہیہ جام ہونے اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث بے روزگاری کی شرح میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے حالات کے پیش نظر لاکھوں کی تعداد میں لوگ پاکستان کو چھوڑ کر روزگار کے لئے بیرون ممالک جا چکے ہیں اور یہ فکر مند اشاریے مستقبل میں ملک کی معیشت پر سرخ دائرہ لگا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت تو اپنی آئینی مدت مکمل کر کے چلی گئی لیکن اپوزیشن پر مشتمل اس حکومت کی بری کارکردگی نے آئندہ انتخابات میں اترنے کے لئے ان کے سیاسی مستقبل کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ اگر وقت پر الیکشن ہو جائیں تو یقینا پی ڈی ایم حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو سخت عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلے ہی عوام پر مہنگائی کا سورج سوا نیزے پر ہے اوپر سے بجلی کے بھاری بھر کم بلوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ بجلی کے بلوں میں حالیہ اضافے نے گھریلو صارفین کو اس قدر پریشان کر دیا ہے کہ لوگ حکومت اور محکمہ واپڈا کے خلاف احتجاجا سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کئی شہروں میں صارفین نے احتجاج کے دوران بجلی کے بلوں کو بھی نذر آتش کر دیا اور مساجد میں اعلانات کئے گئے ہیں کہ لوگ بجلی کے بل ادا نہ کریں۔ بجلی کو عام آدمی کے لئے اس قدر مہنگا کر دیا گیا کہ ایک یونٹ پچاس روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ایک غریب متوسط طبقے کے افراد یہ بوجھ کیسے برداشت کر سکتے ہیں ، ایسا محسوس ہو رہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت کے بعد نگران حکومت بھی پی ڈی ایم حکومت کے نقش پا پر گامزن ہے، جس کے پاس بہترین معاشی ٹیم ہونے کا دعویٰ تو ہے لیکن ایسی کو پالیسی نہیں رکھتی جس سے عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔ ایسے حالات میں میڈیا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مثبت کردار کے ساتھ حکمرانوں کی توجہ گھمبیر عوامی مسائل کی جانب مبذول کروائے تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں، لیکن المیہ ہے میڈیا بھی عوام کی ترجمانی سے قاصر ہے اور ایک خاص سمت میں سفر کرتے ہوئے اپنی ذمہ دارانہ صحافت سے مفر اختیار کئے ہوئے ہے۔ قومی میڈیا پر تو اس وقت حالات کی عکاسی نہیں ہو رہی جس طرح سوشل میڈیا میں تلخ اور دلخراش واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے توسط سے ہی معلوم ہوا کہ ضلع وہاڑی میں ایک بے روزگار غریب نوجوان مستری رمضان 26 ہزار روپے بجلی کا بل آنے پر ادا نہ کر سکا اور پھندے سے جھول کر خودکشی کر لی۔ ایسے واقعات اس دھرتی کو دہلائیں گے تو سوچنا ہو گا کہ حکمران اور فیصلہ ساز قوتیں ملک کو کس جانب دھکیل رہی ہیں۔ خودکشی کرنے والے ضلع وہاڑی سے تعلق رکھنے والے نوجوان مستری رمضان نے اپنا گزشتہ 23ہزار روپے بجلی کابل موٹر سائیکل فروخت کر کے ادا کیا تھا لیکن مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں بھاری بھر کم اضافے نے اس نوجوان کو موت کی نیند سلا دیا۔ سمجھ نہیں آئی کہ حکمرانوں نے غریب آدمی کو کس درجہ پر رکھا ہوا ہے، اس کمر شکن مہنگائی میں لوگ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلائیں یا بجلی کے مہنگے ترین بل ادا کریں۔ غریبوں کے برعکس اعلیٰ سرکاری ملازمین جن میں بارہ لاکھ روپے سے زائد بنیادی تنخواہیں لینے والے جج اور دیگر افسر شامل ہیں، انہیں بے شمار سرکاری الائونسز اور مراعات کے علاوہ بجلی کے ماہانہ کروڑوں یونٹ معاف ہیں۔ انہیں پٹرول اور دیگر مراعات مفت میں کیوں دی جا رہی ہیں، عوام کا لہو نچوڑ کر انہیں ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ کے علاوہ بجلی تک مفت دی جا رہی ہے۔ غریب کا چولہا تب جلتا ہے جب وہ ماچس پر ٹیکس تک ادا کرتا ہے۔ غریب عوام ٹیکس اس لئے ادا کرتے ہیں کہ انہیں مکمل جمہوری لوازمات سے نوازا جائے۔ ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات دینا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے، لیکن یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے، اشرافیہ اور سرکاری افسر عوام کے دئیے گئے ٹیکسوں سے پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ عام آدمی پر مسائل نے حیات تنگ کر دی ہے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے معیشت کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے تاکہ ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہو سکے۔ اب دیکھتے ہیں کہ نگران حکومت ایسے کون سے اقدامات اٹھاتی ہے، جس سے معیشت پٹری پر آجائے اور عوام کو کس حد تک ریلیف ملتا ہے، یہ آنے والے دن نگران حکومت کی گورننس سے طے کرے گی۔ بجلی کے بھاری بھر کم بلوں نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لئے مجبور کر دیا ہے اور ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ احتجاج کا یہ دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے لوگوں میں حکمرانوں کی جانب سے عوام کش اقدامات کے باعث ان کے خلاف نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔ اگر صورتحال کا حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے ادراک نہ کیا تو جس طرح بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں عوام کے سینوں میں بھڑکتا نفرت کا یہ لاوا جب پھٹے گا تو سوائے پچھتاوے کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ الارمنگ حالات کا تقاضا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں، کہیں دیر نہ ہو جائے!

جواب دیں

Back to top button