Column

بجلی کا بل یا موت کا پروانہ؟

مفتی محمد وقاص رفیع
اِس بار 14اگست مناتے ہی وطن عزیز ملک پاکستان کے باسیوں پر بجلی کے بل بجلی بن کر گرے۔ وہ حیران ہیں کہ ان بلوں کو بجلی کے بل باور کریں یا موت کا پروانہ؟ کمر توڑ مہنگائی، بد امنی کی مسموم فضا اور نت نئے حوادثات نے پہلے ہی پاکستانی عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اور پھر اوپر سے بجلی کے بھاری بھرکم بلوں اور اُن پر ظالمانہ ٹیکسز کی لاگت نے جلتی پر تیل کا کام کیا، جس سے پاکستانی عوام تلملا اُٹھے۔ کسی نے اپنی جمع پونجی اِس میں جھونکی تو کسی نے قرض کا بوجھ اپنے اوپر لادا۔ کسی نے اہلیہ کے زیورات بیچے تو کسی نے بوڑھے والدین کی دوائیوں کے پیسے اس مد میں پیش کیے۔ کسی نے اپنی اولاد کا پیٹ کاٹ کر اس تلخ لمحے کو زیر حلق کیا تو کسی نے اپنی جان پر کھیل کر یہ فریضہ سرانجام دیا۔
اس میں شک نہیں کہ وطن عزیز ملک پاکستان اِس وقت بیسیوں مسائل سے انتہائی بری طرح دوچار ہے اور اُن سے نکلنے کی کوئی اُمید دُور دُور تک نظر نہیں آتی۔ منجملہ اُن کے ایک بڑا مسئلہ روز بہ روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ہے، لیکن موجودہ حکومت ہو یا سابقہ حکومت اُن کے سامنے مہنگائی اور عوام کی مشکلات کبھی سر فہرست نہیں آئیں۔ عوام کو روز کسی نہ کسی سیاسی ایشو یا بیان بازی کی طرف لگاکر حقیقی مسائل سے صرفِ نظر کر جاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ مستقل بنیادوں پر جاری و ساری ہے ۔
اِس وقت اگر بجلی کے بلوں کی بات کی جائے تو یہ دیکھ کر دل پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے کہ ان میں استعمال شدہ بجلی کی قیمت سے کہیں زیادہ رقم مختلف قسم کے ٹیکسز کی مد میں وصول کی جارہی ہے۔ ایسے ایسے ٹیکسز بجلی کے بلوں کی مد میں ہڑپائے جارہے ہیں جنہیں ایک پڑھا لکھا پاکستانی بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ ٹیکسز ہیں کیا اور کس مد میں کیوں کر وصول کیے جارہے ہیں۔ نیم خواندہ یا اَن پڑھ طبقہ تو بل دیکھ کر ہی اپنے اوسان خطا کر دیتا ہے بلکہ اسے تو غشی کے دورے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔
جہاں تک بجلی کے بلوں میں شامل ٹیکسز کی بات ہے تو اِس میں تیرہ قسم کے ٹیکسز ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پہلی قسم کا ٹیکس بجلی کے یونٹس کی قیمت پر جنرل سیلز ٹیکس ہے۔ دوسری قسم کا ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر جنرل سیلز ٹیکس ہے۔تیسری قسم کا ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر الیکٹرسٹی ڈیوٹی کا ٹیکس ہے۔چوتھا ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ’’ ویری ایشن ‘‘ (Variation)نامی ٹیکس ہے۔ پانچواں ٹیکس بجلی کے استعمال شدہ یونٹس کی قیمت پر الیکٹرسٹی ڈیوٹی کاٹیکس ہے۔ چھٹا ٹیکس ٹیلی ویژن کی فیس کا ٹیکس ہے ( مساجد و مدارس اور تمام مذہبی باشندگان سے وصول کیا جاتاہے اور یہ ٹیکس ہمارے خیال میں اِس مد میں اُن پر بہ طورِ جرمانہ کے عائد کیا جاتاہے کہ وہ ٹیلی ویژن اپنی مساجد و مدارس اور اپنے گھروں میں رکھ کر کیوں نہیں دیکھتے؟) ساتواں ٹیکس کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ ٹیکس ہے۔ آٹھواں ٹیکس فنانشل کاسٹ چارجز ٹیکس ہے۔ نواں ٹیکس ایکسٹر ا نیکس چارجز ٹیکس ہے۔ دسواں ٹیکس فردر ٹیکس چارجز (Further Tex)ہے۔ ( جس کی سمجھ آج تک کسی پاکستانی عوام کو نہیں آسکی) گیارہواں ٹیکس ود ہولڈنگ ٹیکس ہے۔ بارہواں ٹیکس میٹر رینٹ ٹیکس ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ میٹر رینٹ بھی ہمیں ادا کرنا ہے، حالاں کہ میٹر کی پوری قیمت صارفین میٹر کے حصول کے وقت بھی ادا کر چکے ہوتے ہیں۔ اِس باوجود بھی ماہانہ بنیادوں پر میٹر کا رینٹ وصول کیا جاتا ہے۔ مطلب کہ ایک چیز مکمل طور پر خریدنے کے باوجود بھی اسے کرائے پر دی گئی چیز باور کرا کر اُس سے ٹیکس وصول کیا جاتاہے۔ تیرہواں ٹیکس انکم ٹیکس ہے۔ حالاں کہ بجلی کی اصل اوسط پیداواری قیمت 6روپے 73فیصد ہے اور اُس کے اوپر مزید کیپیسٹی (Capacity)جارجز 16روپے 22پیسے وہ والے ہیں جو سابق حکمرَانوں کی نااہلی کے سبب جعلی قسم کے فراڈ معاہدوں کی شکل میں اس پر لگے ہوئے اب بھی موجود ہیں۔
خیر! اِن بھاری بھرکم ٹیکسز کے بعد بجلی کی اصل قیمت تو صارفین کو ادا کرنی ہی ہے۔ اصلی بجلی کی جو قیمت ہے وہ علاحدہ ہے۔ ٹیکسز الگ سے ہیں۔ اِن ٹیکسز اور بجلی اصل قیمت کو ملایا جائے تو یہ حیرت انگیز انکشاف سامنے آتاہے کہ صرف 100یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 2472روپے بنتا ہے۔ اور102 یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 3511روپے بنتا ہے۔ یعنی صرف 2یونٹ کی زیادتی سے بجلی کا بل 1039روپے کے اضافے کے ساتھ 3511روپے ادا کیا جاتاہے۔
اسی طرح 200یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 6885روپے بنتا ہے ۔ اور 202یونٹ یعنی صرف 2یونٹ کی زیادتی سے بجلی کا بل 1338روپے کے اضافے کے ساتھ8223 روپے ادا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح300 یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل12213 روپے بنتا ہے۔ اور302 یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 14510روپے بنتا ہے۔ یعنی صرف 2 یونٹ کی زیادتی سے بجلی کا بل 2297روپے کے اضافے کے ساتھ14510 روپے ادا کیا جاتاہے۔ اسی طرح 400یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 19218 روپے بنتا ہے۔ اور402 یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 21250 روپے بنتاہے۔ یعنی صرف 2 یونٹ کی زیادتی سے بجلی کا بل 2032 روپے کے اضافے کے ساتھ 21250 روپے ادا کیا جاتاہے۔ اسی طرح 500یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل26430 روپے بنتا ہے۔ اور502 یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 27605 روپے بنتا ہے۔ یعنی صرف 2 یونٹ کی زیادتی سے بجلی کا بل 1175 روپے کے اضافے کے ساتھ27605 روپے ادا کیا جاتاہے۔ اسی طرح600 یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل32994 روپے بنتا ہے۔ اور602 یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 34133 روپے بنتا ہے۔ یعنی صرف 2 یونٹ کی زیادتی سے بجلی کا بل 1139 روپے کے اضافے کے ساتھ32994 روپے ادا کیا جاتاہے۔ اسی طرح 700 یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 39690 روپے بنتا ہے۔ اور702 یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کا بل 44984 روپے بنتا ہے۔ یعنی صرف 2 یونٹ کی زیادتی سے بجلی کا بل 5294روپے کے اضافے کے ساتھ39690 روپے ادا کیا جاتاہے۔ اِس طرح گویا بجلی کے بل میں مذکورہ بالا 13قسم کے 48فیصد ٹیکس لگائے جاتے ہیں، جنہیں عوام طوعاً و کرہاًاپنی جان پر کھیل کر ادا کرتی ہے۔
جبکہ دوسری طرف اشرافیہ اور مقتدر طبقہ اِن ہی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی مراعات کی صورت میں عیاشیوں و خرمستیوں کے نشے میں مبہوت ہیں۔ اسی طرح واپڈا کے 48ہزار آفیسرز، 1لاکھ5ہزار ملازمین سالانہ 39کروڑ 10لاکھ فری یونٹس اور5ارب 25 کروڑ روپے کی سالانہ فری بجلی استعمال کرتے ہیں۔ گریڈ 18اور اس سے اوپر والے بیوروکریٹ، جج، وزیر، مشیر، معاونین خصوصی، وزیر اعلیٰ ، وزیراعظم، صدر ، واپڈا افسران کے 300سے 1000یونٹ سب معاف ہیں، مگر غریب دیہاڑی دار مزدور، رکشہ ڈرائیور، سرکاری ملازمین، ہر مہینے اپنی جیب سے اپنے بل بھی جمع کرا رہیں اور اپنے غریب نمائندگان ( اشرافیہ طبقہ) کے بھی۔ حالاں کہ اشرافیہ اور مقتدر طبقہ کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اِس قسم کی تمام ظالمانہ مراعات کو ختم کرکے دیگر عوام کی طرح اپنی جیبوں سے ملکی ٹیکسز ادا کریں اور ایک نیک پاکستانی وطن ہونے کا ثبوت دیں۔

جواب دیں

Back to top button