
یہ 1929ء کا بمبئی تھا اورپورے شہر میں ایک خوبصورت محبت کی کہانی کے دردناک انجام کی داستان ہر ایک کی زباں پر تھی۔ اسی کہانی کا ایک بنیادی کردار، برِصغیر کا چوٹی کا وکیل، بمبئی کے ساحل پر واقع ایک نیم روشن کمرے میں غم کی گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسکی محبوب بیوی خودکشی کرچکی تھی، یہ قصہ شہر کی ہواوں میں بھی رچ بس چکا تھا۔ اس کا سیاسی کریئر بھی ڈوبنے کو تھا اور وکالت سے بھی اسکا دل اوب گیا تھا۔ مایوسی کے عالم میں وہ کچھ ماہ بعد لندن روانہ ہوگیا۔ یہ مشہور وکیل قائدِاعظم محمد علی جناح تھے اور یہ واقعہ انکی دیو مالائی محبت رتن بائی کی درد ناک موت اور اس سے بھی بڑھ کر محبت کے بطن سے جنم لینے والے اس بے جوڑ رشتے کا ہے جو کہ شیکسپئیر کے کسی ٹریجک ڈرامے سے بھی بڑھ کرہے۔
قارئیں شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ قائد اعظم کی کی اہلیہ رتن بائی یا رتی نیند کی مٹھی بھر گولیاں کھانے کے بعد ایک ہوٹل کے کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں۔ اس کی وجہ آج تک واضح نہیں ہوسکی۔ مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے دیومالائی رومان پر کئی بھڑکتے ہوئے تنازعات حاوی آگئے تھے۔ اپنے آخری خطوط میں سے ایک میں انہوں نے قائدِاعظم کو لکھا کہ ’میرے محبوب! کوشش کریں کہ مجھے ایک ایسے پھول کے طور پر یاد رکھیں جسے آپ نے چنا نہ کہ کسی ایسے پھول کے طور پر کہ جسے آپ نے روندا‘۔
بی بی سی کے ایک خصوصی ضمیمے میں اس واقعے کی بنیاد بننے والے عوامل کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ قائدِاعظم خود میں محدود رہنے والے اور خاموش طبع انسان کے طور پر جانے جاتے تھے، کہتے ہیں کہ انہیں عوام میں صرف 2 مرتبہ روتا ہوا دیکھا گیا ہے، پہلی بار 1929ء میں رتی کے جنازے میں اور دوسری مرتبہ 1947ء میں جب وہ آخری مرتبہ رتی کی قبر پر گئے تھے
ایم سی چھاگلہ رتی کے جنازے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’یہ واحد موقع تھا جب میں نے جناح کو انسانی کمزوری کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔
شواہد بتاتے ہیں کہ قائدِاعظم اپنی ذمہ داری کے حوالے سے احساسِ جرم کا شکار تھے۔ قائدِاعظم رتی سے 24 سال بڑے تھے۔ رتی کے والد پارسی تھے جن سے قائدِاعظم کی دوستی رتی کی پیدائش سے بھی قبل ہوگئی تھی۔ رتی قائدِاعظم کو ’جے‘ پکارتی تھیں اور چھٹیوں میں ان کے ساتھ دنیا بھر میں گھومتیں، اپنے بنگلے میں بڑی دعوتوں کا اہتمام کرتیں اور قائدِاعظم کی شخصیت کے مخصوص انداز میں بھی ان کا بہت ہاتھ تھا۔
لیکن قائدِاعظم کی طرح اپنی سیاسی جدوجہد میں مگن رہنے والے شخص کے لیے رتی کی طالب فطرت کا ساتھ دینا مشکل تھا۔ یوں دُوریاں بڑھتی رہیں۔ رتی کی وفات کے کئی سال بعد قائدِاعظم نے ایک دوست کے سامنے اقرار کیا کہ وہ بچی تھی، مجھے اس سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی، میں نے غلطی کی۔
قائدِاعظم کی کم آمیز شخصیت کی وجہ سے ان کے ذہن میں جھانکنا تو بہت مشکل ہے تاہم یہ بات درست ہے کہ رتی کی وفات کے بعد کے سال ان کی زندگی کا مشکل ترین عرصہ تھا۔ اس دوران ہندوستان میں بھی ان کی تحریک متزلزل تھی یوں وہ ہندوستانی سیاست کو چھوڑ کر وکالت کی غرض سے لندن چلے گئے۔
قائدِاعظم کے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ اپنی اہلیہ کی وفات کے 12 سال بعد تک بھی بعض اوقات وہ رات کے کسی پہر اٹھ جاتے اور لکڑی کا ایک بڑا صندوق کھولنے کا حکم دیتے جس میں ان کے اہلیہ کی چیزیں رکھی ہوتیں۔ وہ خاموشی سے ان چیزوں کو دیکھتے رہتے یہاں تک کہ ان کی آنکھوں میں نمی آجاتی۔۔







