Column

بھڑکنے والی آگ

تحریر : سیدہ عنبرین
مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے عوام کو جاتے جاتے پی ڈی ایم حکومت بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کا تحفہ دے گئی ہے، جس سے ملک بھر میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی ہے، ہر فرد زخم زخم اور گریہ کناں ہے۔
نگران حکومت کئی روز کی خاموشی کے بعد کراچی سے خیبر تک پائی جانے والی بے چینی کا حل ڈھونڈنے کیلئے متحرک ہوئی ہے، تاثر یہ ملا کہ سب کے سب منتظر تھے کہ بچہ روئے گا تو امی جان دودھ کا انتظام کریں گی، نہ رویا تو خاموشی اختیار کئے رکھیں گی بلکہ حال مست رہیں گی۔
حکومت کے ہر الٹے کام کی تعریفیں کرنے والے توجیع پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ نگران حکومت، جانے والی حکومت کے فیصلوں کو تبدیل نہیں کر سکتی، وہ اس کی مجاز نہیں، مزید برآں بجلی کا ٹیرف آئی ایم ایف کے کہنے پر بڑھایا گیا ہے لہٰذا ریلیف دینا ممکن نہیں، اس قسم کی گفتگو کرنے والے دانشور درست نہیں کہہ رہے، وہ سچ کہہ کر عوام سے کچھ حاصل نہیں کر سکتے لیکن حکومتی فیصلوں کا دفاع کرکے وہ تمغہ حسن کارکردگی حاصل کر سکتے ہیں اور حکومت کے مالیاتی مشیر کا عہدہ حاصل کر سکتے ہیں، دیگر فوائد کی فہرست بہت طویل ہے۔
مانا کہ نگران حکومت کا کام نگرانی ہے لیکن وہ ہر قومی معاملے کو نگرانی کے کھاتے میں ڈال کر مٹی کے مادھو بن کر نہیں بیٹھ سکتے۔ روز مرہ معاملات چلانا ان کی ذمہ داری ہے، وہ گھڑیوں کی سوئیوں کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتے، نہ ہی زمین کو گردش کرنے اور سورج کو طلوع و غروب ہونے سے روک سکتے ہیں، لیکن ملک میں سیلاب یا زلزلہ آجائے، ملک پر کوئی حملہ کر دے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ قدرتی آفات سے نمٹنا یا حملہ آور کو منہ توڑ جواب دینا ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے۔
ملک کے اندرونی معاملات میں بہتری لانے کیلئے اگر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو کوئی قانون، کوئی آئین کسی کو نہیں روکتا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بجلی کے بلوں میں ٹی وی فیس شامل کرکے پچیس برس تک ہر شہری کو لوٹنے کی فرمائش آئی ایم ایف نے کبھی نہیں کی۔ نہ ہی اُنہوں نے اس بات پر کبھی اصرار کیا ہے کہ حکومت اڑھائی سو ارب روپے کی بجلی، سوئی گیس ان محکموں کے سابق ملازمین کو بلا قیمت دے، آئی ایم ایف نے کبھی حکومت پاکستان کو مجبور نہیں کیا کہ پانچ سو ارب روپے کا مفت پٹرول سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو دیا جائے اور تمام بوجھ عام آدمی پر ڈال دیا جائے۔
آئی ایم ایف کی تابعداری کا شوق رکھنے والوں سے جب کہا گیا کہ تمام سول افسروں اور اسٹبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والوں کے اثاثوں کی تفصیلات مہیا کی جائیں تو یہ تفصیلات مہیا نہیں کی گئیں، صاف انکار کر دیا گیا، یہ انکار بجلی کے بلوں میں اضافے، کرنسی کی قیمت کم کرنے ڈالر کو کھلا چھوڑنے اور پٹرول کی قیمت کم کرنے کے معاملے پر بھی کیا جاسکتا، لیکن نہیں کیا گیا کیونکہ خواص اور سیاسی خاندان اشرافیہ ہیں جبکہ عوام بھیڑ بکریاں سمجھے جاتے ہیں، ان سے ایسا ہی برتائو کیا جاتا ہے۔
حکومتی اہلکاروں کی معاونت سے بجلی چوری ہوتی ہے، قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور ایسے لائن لاسز کے کھاتے میں ڈال کر جان چھڑا لی جاتی ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کے اثاثے چیک کرائے جائیں تو بھید کھل جائے گا کہ چالیس فیصد بجلی چوری ہورہی ہے، اس چوری میں عام آدمی، سرکاری اہلکار اور انڈسٹریلسٹ سبھی شامل ہیں۔
تھانے بکنے کی بات بہت پرانی ہوئی، اب واپڈا اور بجلی کی تقسیم و بلنگ کیلئے بنائے گئے ڈویژن بکنے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اس محکمے میں بھی سزا و جزا کا کوئی تصور نہیں ہے، رات آٹھ بجے بازار بند کرکے بجلی کیوں نہیں بچا سکتے؟۔ گزشتہ چالیس برس میں آنے اور جانے والی حکومتیں، ان کے سربراہ ایک چھوٹا سا فیصلہ نہیں کر سکے کہ بجلی اور گیس کے محکمے کو یکجا کر دیں، ایک ہی میٹر ریڈر آئے اور دونوں کی ریڈنگ لے جائے اور صارف کو دو بل بھجوا دیئے جائیں، اس طرح دو کاموں کیلئے دو میٹر ریڈروں کی تنخواہ، ان کے وقت، ان کے پٹرول پر اٹھنے والے اخراجات سے ماہانہ اربوں روپے بچاکر کسی ڈھنگ کے کام میں لگائے جاسکیں گے۔ ’’ سیلب سسٹم‘‘ کا فراڈ بھی بند کیا جائے، ہر شعبہ زندگی میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہے، جس پر حکومت یا نگران حکومت کا ایک روپیہ خرچ نہیں آتا، ایسے فیصلوں کیلئے حقائق کے ادراک کے ساتھ ساتھ درد دل کی ضرورت ہے۔ دوسروں لفظوں میں آپ اسے ’’ نیک نیت‘‘ ہونا کہہ سکتے ہیں۔ بجلی کے بلوں سے بھڑکنے والی آگ پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے، ورنہ پٹرول کی قیمت پر دھیان پڑ گیا تو آگ ایسی بھڑکے گی کہ بجھائے نہ بجھے گی۔ پٹرول کی قیمت پر بے جا ٹیکس اور لیوی لگاکر اسے مہنگا کرنے سے گریز کیا جائے، عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا جھانسہ نہ دیا جائے، قوم میں اپنے حقوق کے تحفظ کا احساس اور ہر روز لٹنے سے بچنے کیلئے مدافعت کا عنصر بڑھ رہا ہے، جس میں کچھ بھی ناجائز نہیں ہے، اگر کچھ ناجائز ہے تو ٹیکس در ٹیکس کا نظام، اسے بدل لینا بہتر ہے، قبل اس کے قوم بدل جائے اور آنکھیں بھی پھیر لے۔

جواب دیں

Back to top button