معیشت کی بحالی سے قوم کو ثمرات ملیں گے

تحریر : اطہر زیب
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ ہر طبقے کے تعاون سے پاکستان کے خواب کو آگے بڑھانا ہے۔ اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ معاشی چینلجز کے باوجود معیشت کیلئے عزم غیر متزلزل ہے۔ ہر طبقے کے تعاون سے پاکستان کے خواب کو آگے بڑھانا ہے، تاجر، وکلا، کسان، انجینئر، فنکار اور ڈاکٹر خواب پاکستان کی تعمیر میں مدد کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے روشن مستقبل کے لیے سفر جاری رہے گا۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد پاکستان کی معیشت پر چھائے گہرے سیاہ بادل چھٹ گئے۔ معیشت کی بحالی سے قوم کو ثمرات ملیں گے، سٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ تیزی دیکھنے میں آئی، ڈالر کی قیمت بھی خاصی نیچے آئی۔ بلاشبہ ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا، پاکستان ڈیفالٹ کے قریب تھا اور تین سے 6ماہ میں ڈیفالٹ ہوسکتے تھے۔ پاکستان سٹاک ایکس چینج میں اضافے کے ساتھ کاروبار کے آغاز اس بات کی نشاندہی ہے کہ حکومت کی درست پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی بحالی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے اور اب ملک دوبارہ ترقی کے راستے پر گامزن ہو چکا۔ پاکستان کے پاس 4ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ موجود ہے، اگلے 6ماہ میں یہ تعداد دگنا ہو سکتی ہے، یوں زرمبادلہ کے ذخائر پر جو دبائو تھا وہ ختم ہوجائے گا اور مہنگائی کا کچھ بوجھ کم ہوجائے گا، روپے کو استحکام ملے گا، شرح سود اور ٹیکسز میں کمی آئے گی۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ پاکستان کے لیے ضروری اور مجبوری بھی تھا کیونکہ حکومت کے پاس کوئی اور چوائس نہیں تھی۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ حکومت کے لیے بہت بہتر ہے، آئی ایم ایف کی شرائط نہیں ہوتیں، ان کے اصول ہوتے ہیں، جو طے کرنے پڑتے ہیں لیکن قرض لے کر اگر آئی ایم ایف کے اصول پر عمل نہیں کرتے تو مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔ ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی ادارے موڈیز نے بھی کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) معاہدہ پاکستان کی معیشت کو استحکام دے گا۔ قلیل مدت میں معاشی سرگرمیاں متاثر رہیں گی، لہٰذا پاکستان کو طول المدتی استحکام کے لیے اصلاحات لانا ہوں گی۔ پاکستان کو اپنی آمدن بڑھانا ہوگی جبکہ ٹیکس اصلاحات لانے کی بھی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کے میکرو اکنامک کو سپورٹ کرے گا، پاکستان کو آمدنی بڑھانے کے لیے اقدامات اور اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ادھر کاروباری برادری نے عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے ساتھ نو ماہ کے 3ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی معاہدے پر دستخط کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ بے یقینی کو ختم اور مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے گا جس کی معیشت کو اشد ضرورت تھی۔ تاہم آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پروگرام سے پیداواری لاگت بڑھ سکتی ہے، جس سے پوری تاجر برادری خوفزدہ ہے اور حکومت کو اس تشویش کو دور کرنے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اب پاکستان کے لیے دوست ممالک کی جانب سے مدد کی راہ کھل گئی ہے، جبکہ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے پالیسی اور پراجیکٹس لونز کے اجراء میں تیزی آئے گی اور سکوک بانڈ اور یورو بانڈز کا اجراء بھی کم شرح سود پر ممکن ہو جائے گا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات سے بجٹ 2023۔24کو منظور کرتے ہوئے 215ارب روپے کے مزید ٹیکس لگائے گئے، بجٹ کے ا علان کے وقت223ارب روپے کے ٹیکس لگے تھے، جبکہ 170ارب روپے کے منی بجٹ کے اقدامات کو جاری رکھا گیا۔ پٹرولیم لیوی کو بڑھایا گیا۔ درآمدات سے تمام پابندیاں بھی اٹھانا پڑی ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اس نئے معاہدے سے پہلے شرح سود کو ریکارڈ22فیصد پر لے جانا پڑی ہے، جبکہ ملک کے اند افراط زر 38فیصد کی سطح کو چھو رہا ہے۔ معاہدہ ہونے سے پاکستان کے بیرونی ملک جاری کیے گئے یورو بانڈز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ سے ملکی سطح پر ریونیو میں اضافہ اور عوام کی بہتری کے لیے اخراجات کو محتاط انداز سے خرچ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سے ترقیاتی اور سماجی ترقی کے لیے گنجائش پیدا ہوگی۔ سٹیٹ بینک کو افراط زر میں کمی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے، پاکستان کے حکام کی کوشش ہے کہ وہ نئی فائنانسنگ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرضوں کے رول اوور کے لیے کام کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ انرجی سیکٹر کو بھی بہتر
بنایا جائے، سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں میں گورننس کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اقتصادی بحالی کے منصوبے سے ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی اور چالیس لاکھ افراد کے لیے روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے تاہم یہ ایک مشکل سفر ہو گا۔ پاکستان کو بڑے پیمانے پر درپیش معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اسلامی ترقیاتی فنڈ، دیگر دوست ممالک اور شراکت داروں نے بھی خصوصی تعاون کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے اصول میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر آدمی ٹیکس دے گا۔ اس معاہدے سے ڈیفالٹ کا خطرہ تو ٹل گیا لیکن آئی ایم ایف پروگرام آسان نہیں ہوگا، عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پر حکومت نے عوام پر مزید اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاریاں کر لی ہیں۔ پروگرام کی شرائط کے تحت پاکستان پہلے ہی بجلی و گیس نرخ بڑھا چکا ہے جبکہ اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس اور پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی مد میں زیادہ ٹیکس وصول کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ شرح سود میں مزید اضافہ بھی ہو گا اور اس کا مجموعی اثر عوام پر مزید مہنگائی کی بوجھ میں پڑے گا، جو اس وقت مہنگائی کی بلند شرح میں پس رہے ہیں۔ پاکستان میں مئی کے مہینے کے اختتام پر 38فیصد کی بلند شرح مہنگائی تھی جو پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک مہینے میں مہنگائی کی بلند شرح ہے۔ پی ڈی ایم کی سابق حکومت پہلے ہی بجلی اور گیس صارفین پر 1300ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈال چکی ۔ اتحادی حکومت نے بجلی صارفین پر ایک ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا جبکہ گیس صارفین پر 310ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ اس کے علاوہ صارفین پر 3روپے 39پیسے فی یونٹ بجلی کا اضافی سر چارج بھی عائد کیا گیا تھا جبکہ صارفین نے سہ ماہی اور ماہانہ ایڈجسٹمنٹ میں اضافے کا بوجھ الگ برداشت کیا۔ ہمیں کرنٹ اکائونٹ سرپلس کی کوشش رکھنی چاہیے۔ پاکستانی معیشت کی بحالی بلاشبہ آئی ایم ایف پروگرام سے ممکن ہوئی، لیکن حکومت کو غریب اور متوسط طبقات پر تمام ٹیکسوں کا بوجھ منتقل کرنے کے بجائے طبقہ امرا کی مراعات میں کمی کرنی چاہیے، تاکہ معیشت کی بحالی کے حقیقی ثمرات قوم کو مل سکیں۔





