ظرف کا پہاڑ آئی جی پنجاب

فیاض ملک
پولیس انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں پہلی سیڑھی کی حیثیت رکھتی ہے اور عوام کا سب سے زیادہ واسطہ بھی اسی محکمے سے پڑتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو عوام پولیس سے ناخوش ہے تو دوسری طرف پولیس کے اپنے حالات بھی انتہائی نا گفتہ بہ ہیں، کہنے کو تو پنجاب پولیس کو ایک کھرب روپے سے زائد کا سالانہ بجٹ ملتا ہے لیکن جب وسائل کی فراہمی کا جائزہ لیں تو صورتحال بہت مخدوش دکھائی دیتی ہے۔ تھانوں کی سطح پر کام کرنے والے پولیس اہلکاروں کے احوال ناقابل بیان ہیں، نہ ان کیلئے رہائش کے مناسب انتظامات ہیں اور نہ ہی کام کرنے کیلئے بہتر ماحول میسر ہے، اوپر سے ان کی ڈیوٹی ہر قسم کے اوقات سے ماورا ہے ایک پولیس اہلکار مسلسل کئی کئی گھنٹے بغیر آرام کے ڈیوٹی کرتا ہے جس کے سبب جب مزاج میں چڑچڑا پن آتا ہے تو اسکے منفی اثرات پورے محکمے پر مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم پولیس کلچر کی بات کرتے ہیں تو اس کا 90فیصد تعلق تھانے کے کانسٹیبل سے لیکر ایس ایچ او یا انچارج انویسٹی گیشن رینک کے ملازمین سے ہوتا ہے کیونکہ عوام کا 99فیصد واسطہ انہی سے پڑتا ہے اور انہی کا رویہ ’’ پولیس کلچر‘‘ کہلاتا ہے۔ جس کا نتیجہ گزشتہ دنوں شہر لاہور کی سڑک پر پیش آنیوالے واقعہ کی صورت میں نکلتا ہے، جس میں ایک یوٹیوبر بیچ سڑک پر پولیس اہلکار شاہد کی موٹر سائیکل کو روکتا ہے اور کہتا ہے کہ ناظرین یہ دیکھیں پنجاب پولیس کا اہلکار بغیر ہیلمٹ اور نمبر پلیٹ کے موٹر سائیکل چلا رہا ہے، یو ٹیوبر کے مسلسل روکنے اور زچ کرنے پر پولیس اہلکار نے آئی جی پنجاب اور سی سی پی او سمیت دیگر افسران کیلئے بے دریغ غیر شائستہ الفاظ استعمال کئے اور موقع پر موجود لوگوں کو تھپڑ مارے، گالیاں بھی دیں تھی، اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر گویا ایک طوفان بدتمیز ی برپا ہوگیا، ہر طرف سے تنقید کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ( میمز) بننا شروع ہوگئے، دوسری جانب ویڈیو وائرل ہونے کی دیر تھی کہ کانسٹیبل شاہد کو گرفتار کر لیا جاتا ہے، واقعہ کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوتا ہے کہ چند سال قبل کچے میں ڈاکوئوں کے خلاف جاری آپریشن میں سرکاری گاڑی الٹنے کی وجہ سے اس کے سر پر گہری چوٹ آئی تھی اور وہ ذہنی بیماری کی وجہ سے ڈیوٹی سے غیر حاضر تھا، جس پر اس کو انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ منتقل کر دیا گیا، جہاں اس کا علاج شروع کر دیا گیا، اسی دوران پنجاب پولیس کے کمانڈر کی حیثیت سے ڈاکٹر عثمان انور نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کا دورہ کیا جہاں انہوںنے شاہد کو گلے لگاتے ہوئے اس کی جلد صحت یابی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کانسٹیبل شاہد کو درپیش بائی پولر ڈس آرڈر قابل علاج مرض ہے، ایسے مریض کو میمز وار (memes war)کا حصہ بنانے کی بجائے اس کی صحت یابی کیلئے دعا کریں، بلاشبہ مہذب معاشرے میں کسی کی بیماری کا تمسخر اڑانا ، الزامات لگانا، میمز بنانا اس مریض اور اہل خانہ کیساتھ زیادتی کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور ایسا کرنیوالوں کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم کو صرف پولیس کی خامیاں ہی نظر آتی ہیں خوبیاں نہیں۔ عموماً پولیس کے اچھے کام کو اتنا سراہا نہیں جاتا جتنے کہ وہ حقدار ہوتے ہیں البتہ ان کی ذرا سی بھی دانستہ یا غیر دانستہ غلطی میڈیا کی بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ کئی ادوار سے کچھ ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ ہوتے رہے ہیں جن کی بنا پر عوام اور پولیس کے مابین خلیج دن بدن بڑھی ہے، میں یہاں یہ بھی کہوں گا کہ صرف پولیس غلط نہیں ہے عوام بھی غلط ہے اور جب تک دونوں اپنی اپنی غلطیاں درست نہیں کرتے پولیس کا نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا چاہئے کتنے مرضی قانون بنا لیں یا پولیس اصلاحات لے آئیں، یہاں یہ بھی سچ ہے کہ بطور صحافی ہمارا کام صرف جرم کی نشاندہی کرنا ہے، کسی کو قوانین کی خلاف ورزی پر مجمع لگا کر روکنا ہمارا کام نہیں کہ اس پر عملدرآمد کروانا قانون ہی کی ذمہ داری ہے، یقین جانئے میں نے اپنے صحافتی کیرئیر میں عثمان انور کی شکل میں پہلی بار ایسا آئی جی دیکھا جو اتنے بڑے ظرف کا مالک ہے کہ گالیاں دینے والے کانسٹیبل کو خود ملنے ہسپتال پہنچا اور اس کو گلے بھی لگا لیا، یقینا یہ انکے بڑے پن کا ثبوت ہے، پولیس سروس کے23ویں کامن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عثمان انور نے 1995ء میں بطور اے ایس پی پولیس سروس جوائن کرنے کے بعد سی ٹی ڈی پنجاب، ایس ایس پی آپریشنز فیصل آباد، سی آئی ڈی، چیف ٹریفک افسر راولپنڈی، پرائم منسٹر آفس اسلام آباد، ڈی پی او اوکاڑہ، ڈی پی او سرگودھا، ٹیلی کمیونیکیشن، ایلیٹ فورس اور ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ بھی تعینات رہ چکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ سندھ اور اسلام آباد پولیس میں بھی اہم عہدوں پر فرائض ادا کئے ہیں۔ ڈاکٹر عثمان انور ہر طرح کے کمپلیکس سے آزاد، راست بازی، منافقت سے کوسوں دور ایک ہمدرد اور ماتحت پرور افسر ہے جو اپنے جونیئرز کی عزت و آبرو کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں، جونیئرز کو اگر سمجھانا ہو بہت اچھے الفاظ کا چنائو کرتے ہیں۔
، وہ نہ صرف انتہائی مضبوط قوت فیصلہ کے حامل افسر ہیں بلکہ اپنے فیصلوں پر ڈٹ جانے کی خصوصیت بھی رکھتے ہیں۔ پنجاب پولیس میں بہت کم سربراہ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اہلکاروں کے حالات پر توجہ دی ہو ، گزشتہ چند مہینوں میں جس تیزی کیساتھ پنجاب پولیس میں تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں انہوں نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ بطور کمانڈر آف پنجاب پولیس انہوںنے اپنے دفتر کے دروازے ماتحت عملہ کیلئے عملی طور پر کھول دئیے۔ ایک دن خبر آتی کہ شہداء فنڈ میں اضافہ کر دیا گیا ہے تو دوسرے دن خبر ملتی کہ غازیوں اور دوران سروس فوت ہونیوالے ملازمین کے فنڈز میں سو گنا اضافہ کر دیا گیا۔ میڈیکل الائونس تین کروڑ سے 63کروڑ روپے کر دیا گیا۔ غازی جو محکمہ کی خاطر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے بعد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار تھے کیونکہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو مستقل معذوری کا شکار ہو گئے جو نہ نوکری چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور کام کرنے کے قابل ہیں۔ ان تمام غازیوں کی پنجاب پولیس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حوصلہ افزائی کی گئی اور جہاں کبھی آئی جی صاحب کی گاڑی کھڑی ہوتی تھی اس ڈیوڑھی کو شہدا اور غازیوں کی تصاویر اور کارناموں کیلئے مختص کر دیا۔ مقدمات کی بروقت تفتیش کے عمل کو مکمل کرنے کیلئے کاسٹ آف انویسٹی گیشن میں 100گنا اضافہ کیا گیا وہی انعام کی مد میں 10کروڑ روپے مختص کرتے ہوئے جس تیزی سے ماتحت افسران اور اہلکاروں میں انعامات دئیے گئے اس کی مثال نہیں ملتی اور ان انعامات کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب پنجاب پولیس کا کپتان اپنے ماتحتوں کو انعام دینے سے پہلے گلے لگاتا ہے ان کا ماتھا چومتا ہے انکے بچوں کو اٹھا کر پیار کرتا ہے۔ ایک اے ایس آئی کیلئے اس سے بڑے اعزاز کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے کندھوں پر اسکے والد کے ہاتھوں بیجز لگائے جا رہے ہیں اس کی فیملی کے افراد کو خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا ہے۔ اور پہلی مرتبہ یہ احساس کیا گیا ہے کہ پولیس ملازمین کو نہ صرف میرٹ پر تقرریاں دی جائیں بلکہ ان کی عزت نفس بحال کرنے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر عثمان انور نے ایک باپ کی طرح اس محکمے کو اپنے سینے سے لگایا ہے۔ پولیس کے مورال کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچاتے ہوئے اس محکمے کو اخلاقی طور پر کھڑا کرنے میں اپنا کردار ادا کر دیا ہے اب پولیس پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا حق ادا کرتے ہوئے تھانوں کو واقعتا دارالامن بنائے، مصالحتی کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ کمیونٹی پولیسنگ مزید بہتر بنانے کیلئے عملی طور پر اقدامات کو یقینی بنائیں تاکہ محکمہ پولیس پر لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہو۔





