
سی ایم رضوان
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے۔ یہ شعر بچپن سے سنتے آ رہے تھے مگر اندازہ اس دور میں آ کر ہوا ہے کہ یہ کمائی کیسے لٹتی ہے۔ وطن عزیز میں موجودہ دور میں یہ شعر مکمل طور پر سچ ثابت ہو گیا ہے اور کسی لمبے چوڑے پراجیکٹ پر نہیں صرف بھاری بھر کم بجلی کے بلوں پر ہی وطن عزیز کے تمام غریبوں کی کمائی لٹ گئی ہے۔ اس دور کے سلطانوں سے بھول یہ ہوئی ہے کہ پانچ سال قبل آنے والا ’’ میرا کپتان سلطان’‘‘ کہتا تھا کہ خودکشی کر لوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا مگر اس نے ماضی اور حال کے تمام سلطانوں سے بڑی بھول کر دی۔ اس نے انتہائی کڑی شرائط پر ماضی کے تمام حکمرانوں سے زیادہ قرض لے لیا۔ پھر دوسرا سلطان آیا اور کہا کہ ہم سب مل کر معیشت درست کر لیں گے لیکن ڈیفالٹ کے خطرہ سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف کا پھندا قوم کے گلے میں پھر سے نو ماہ کے لئے گلے میں ڈال کر چلا گیا اور اب نگران سلطان آئے ہیں۔ انہوں نے تو کمائی کرنے یا بچانے کا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں تھا یہ تو سابقہ سلطانوں کی بھول کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں اور غریبوں کی کمائی لٹ گئی ہے۔ اب پاکستان کا تقریباً ہر شخص جو رواں ماہ آنے والے بجلی کا بل جمع کروا رہا ہے اس کی کمائی لٹ رہی ہے۔ گزشتہ شہباز حکومت نے ایک کروڑ 71لاکھ صارفین اور تین لاکھ ٹیوب ویلز کے لئے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابقہ عمران حکومت کی نااہلی سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا لہٰذا شہباز حکومت کی طرف سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں جون کے لئے تقسیم کار کمپنیوں کو بجلی 9روپے 90پیسے جبکہ کے الیکٹرک کو 11روپے 10پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
دوسری جانب بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے پر سپریم کورٹ میں آئینی درخواست بھی دائر کر دی گئی تھی جس میں بلوں میں اضافے کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کے آرٹیکل کے تحت بجلی کے بلوں میں اضافے کی حوالے سے کہا تھا کہ 15ہزار روپے تنخواہ لینے والے صارف کو 25ہزار بجلی کا بل قرض لے کر جمع کروانا پڑے گا، غریب بچوں کو روٹی کہاں سے کھلائے گا اور کرایہ کیسے ادا کرے گا۔ حکومت کسی شہری پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈال سکتی لیکن یہ سب کچھ تاحال محض گفتگو تک ہی محدود ہے اور غریب مسلسل لٹ رہے ہیں جبکہ سابقہ اتحادی سلطان اپنے طور پر بجلی ڈسٹری بیوٹر کمپنیوں میں جدت بھی لائے تھے، صارفین کو سستی بجلی فراہمی کا چیلنج بھی قبول کیا تھا۔ دعویٰ بھی کیا تھا کہ دو سو یونٹ تک کے صارفین کو 22ارب روپے کا فائدہ دیں گے لیکن اس دور میں بھی انتہائی زیادہ بجلی کے بلوں سے مہنگائی کے شکار عوام مزید مشکلات کا شکار ہوگئے تھے حالانکہ 200یونٹ تک صارفین کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ معاف کرنے سے حکومت کو صرف 11ارب روپے کا نقصان پہنچنا تھا مگر حکومت نے شاید یہ نقصان قومی خزانے کو تو پہنچا دیا ہو مگر عوام کو یہ فائدہ نہ دیا گیا۔ فائدہ تو موجودہ سیلاب کے دنوں میں ڈیموں کے پانی سے بھر جانے کے بعد سستی بجلی کی تیاری اور فراہمی سے بھی ہو سکتا تھا۔ جو کہ ماضی میں ہر سال ہوتا بھی تھا مگر اس سال اگست کے بلوں کے ساتھ یہ ہوا کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ جو ہر ماہ صارفین سے وصول کی جاتی ہے جس میں گزشتہ کئی ماہ سے ہر ماہ بلوں میں صرف اضافہ ہو رہا ہے، اس میں کمی بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہے۔ رواں ماہ اگست میں اووربلنگ اور ایڈجسٹمنٹ ڈبل چارج کرنے کی وجہ سے رعایت ملنے کی بجائے اضافے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار عید کے دنوں میں مختلف کمپنیوں کی طرف سے ریڈنگ بھی نہیں لی گئی جس کے بعد گزشتہ ماہ سات روپے سے زائد اور اس سے اگلے ماہ 9روپے 91پیسے کا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ شامل کیا گیا۔ اس مد میں صارفین کو 17روپے فی یونٹ اضافی ادا کرنا پڑے۔ یہ اضافہ پچھلے ماہ اور ماہ رواں بھی جاری رہا۔ یہاں تک کہ اب عوام کا حوصلہ جواب دے گیا ہے۔
بجلی کے بلوں میں حالیہ بے تحاشہ اضافے سے ایک طرف عام شہری، تنخواہ دار طبقہ اور چھوٹے تاجر، دکاندار پریشان ہیں وہاں ملک بھر کی تمام چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کا وجود قائم رہنا بھی محال ہو گیا ہے۔ ملکی معیشت کی عملی صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ محض بجلی کا شعبہ لڑکھڑاتی معیشت کو ڈبو رہا ہے، بجلی کے موجودہ نرخ زراعت، صنعتی پیداوار اور برآمدات تک کو ختم کر رہے ہیں کیونکہ عوام تو دیوالیہ ہو ہی چکے ہیں نیز گیس اور ایندھن کی قیمت میں مسلسل اضافے اور کرنسی کی گرتی قیمت کی وجہ سے مقامی برآمد کنندگان بھی بین الاقوامی منڈی میں مسابقت کے قابل نہیں رہے اور حریف ممالک ان کی جگہ لے رہے ہیں۔ بجلی گیس کے بل اور پٹرول کی قیمت میں ماہانہ اضافے نے کاروباری طبقے کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عوامی اضطراب اور ہولناک حالات کی مزاحمت سیاسی جماعتوں اور منتخب پارلیمانی اداروں میں اپنا وجود نہ دکھا پا رہی ہے جس بنا پر عوامی اضطراب میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ کئی علاقوں اور صوبوں میں مساجد سے بجلی کے بل جمع نہ کرانے کے اعلانات ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ عوام نے غیر منظم مزاحمتی اور احتجاجی آوازیں بلند کرنا شروع کر دی ہیں اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے بائیکاٹ کی مہم کا تصور پیش کیا جارہا ہے۔ ایک طرف حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں کمی آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تو دوسری طرف معاشرے کی نچلی سطح پر اس صورت حال کے خاتمے کے لئے ایسی مزاحمتی تحریک اٹھنے کے آثار نمایاں ہو گئے ہیں جن کی کوئی قیادت نہ ہو جو اگر سڑکوں پر آ جائیں تو کوئی قاعدہ، قانون اور ضابطہ ان کو روک نہ سکے اور وہ جو چاہیں تباہ کر دیں۔
موجودہ صورتحال میں کم از کم واپڈا کے دفاتر بچانا تو پھر محال ہو جائے گا۔ اس منظر نامے میں سیاسی قوتوں کی پسپائی، بے حسی اور ناکامی کے خطرناک اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ مہنگی بجلی بنا کر سستی بجلی فروخت نہیں کر سکتے، لیکن وہ اس بات کا جواب نہیں دیتے کہ بجلی کی پیداواری لاگت 3روپے فی یونٹ سے 50روپے فی یونٹ کیسے بڑھ گئی۔
ایک عام گھریلو صارف جس کی ماہانہ آمدنی اوسطاً 20سے 28ہزار روپے ہے اسے 10سے 15ہزار روپے بجلی کا بل موصول ہوتا ہے۔ مکان کا کرایہ، گھریلو اخراجات اور دوسرے مسائل نے اس کی زندگی میں جو تلخیاں بھر دی ہیں ان کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ خصوصاً ان پالیسی سازوں کو جو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کر دیتے ہیں۔ اندریں حالات یہ مطالبہ درست ہے کہ اولاً حکومتی بجلی کے 3سو یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والے صارفین کو فیول چارجز معاف کر دے۔ دوسرا یہ کہ زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو بھی اس مد میں پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں میں ردوبدل کے حساب سے رعایت ملنی چاہئے۔ تیسرا یہ کہ ٹیکسوں کی بھرمار سے صارفین کو نجات دلائی جائے۔ امید ہے کہ نگران ارباب اختیار شہریوں کی آمدنی و اخراجات میں عدم توازن، مہنگائی سے پیدا ہونے والی موجودہ سنگین نوعیت کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ عوام پر آئندہ کم سے کم بوجھ پڑے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو شدید عوامی ردعمل جنم لینے کا خطرہ دوچند ہو جائے گا۔ لہٰذا نگران وفاقی حکومت کو بہت سنجیدگی کے ساتھ عام شہریوں کے بجلی کے بلوں پر توجہ دینا ہوگی ورنہ موجودہ نگران حکومت کی یہ بھول سابقہ کہنے کی حد تک منتخب حکومتوں کی غلطیوں سے بھی بڑی بھول شمار ہو گی کیونکہ بھوکے اور بے قیادت شہریوں کا غیض و غضب کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا۔





