ColumnImtiaz Aasi

نواز شریف کی وطن واپسی

امتیاز عاصی
اداروں کے پرودرہ سیاست دانوں کی سیاست کا دارومدار اپنے آقائوں کی آشیرباد کا مرہون منت ہوتا ہے۔ اداروں کی پیداوار سیاست دان عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے اداروں پر تنقید کرکے عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کا غریب عوام کو دھوکہ دینے کا یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں ایسے سیاست دانوں کی سیاست پر کاری ضرب لگائی جس نے آج کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں یہ بات نقش کردی کہ بار بار اقتدار میں آنے والوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ سیاست دان اداروں کو مداخلت کی آفر نہ دیتے تو ہمارا جمہوری نظام مضبوط ہو چکا ہوتا۔ معاشی طور پر ہمارا ملک بھارت اور بنگلہ دیش سے بہت پیچھی رہ چکا ہے جب کہ ہمارا شمار دنیا کے مقروض ترین ملکوں میں ہونے لگا ہے۔ مارشل لاء کے دور کو نکالیں تو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی برسوں اقتدار میں رہ چکی ہیں کسی ایک جماعت نے ملک کے معاشی حالات کی بہتر ی کی بجائے کک بیکس پر توجہ مرکوز کئے رکھی اور کرپشن کے ناسور نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ سیاست دانوں کی ساکھ کا یہ عالم ہے مرحوم صدر غلام اسحاق کے بعد کسی وزیراعظم کو نیوکلیر پروگرام کے قریب نہیں آنے دیا گیا۔ آخر کیا وجہ ہے اقتدار میں رہتے ہوئے انہیں اس پروگرام سے دور رکھا گیا؟ دراصل سیاست دانوں نے اپنی غلط روش کے باعث اپنے آپ کو بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نواز شریف وطن واپسی کی ٹھان چکے تھے بلکہ ان کے استقبال کی تیاریاں جاری تھیں جس کے لئے مریم نواز بہت سرگرم تھیں کہ روزنامہ جہان پاکستان کی خبر سے سیاسی حلقوں میں بھونچال آگیا ہے نواز شریف ابھی وطن واپس نہیں آئیں گے۔ نواز شریف وطن کیسے واپس آسکتے ہیں جن جمہوریت کے دعویدار سیاست دانوں کی سیاست کا مرکز و محور ادارے ہوں ان کی سیاست کا دارومدار اداروں کی صوابدید پر منحصر ہے۔ ہم سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کے اس بات سے متفق ہیں چھوٹا بھائی بڑے بھائی کو وطن واپس نہیں لا سکا تو نگران دور میں ان کی واپسی کیسے ممکن ہوگی؟ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے سپریم کورٹ کے احکامات اور آئین کے تحت نوے روز میں پہلے الیکشن نہیں ہوا تو آئندہ انتخابات کے انعقاد کی کیا گارنٹی ہے؟ اگرچہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے آقائوں کی آشیرباد سے پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کو کھڈے لائن لگا دیا ہے اس کے باوجود عوام تحریک انصاف کے ساتھ ہیں؟ پی ڈی ایم اور خصوصا سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خلاف مقدمات کو ختم کرانے کے ساتھ عوام کو مہنگائی کے چنگل میں نہ پھنساتے تو اس بات کی امید کی جا سکتی تھی آئندہ عام انتخابات میں عوام مسلم لیگ نون کو ووٹ دیں گے۔ شریف خاندان سے عمران خان کا کوئی ذاتی تنازعہ نہیں تھا خان کے دور میں نواز شریف سے ایون فیلڈ میں خریدی گئی جائیداد کی رقم کے ذرائع پوچھتے گے تو وہ آگ بگولہ ہوگئے وہ آمدن کے ذرائع بتا دیتے تو مقدمات سے خان کے دور میں گلو خلاصی کرا سکتے تھے۔ شریف خاندان اپنے اثاثوں کے ذرائع بتا دیتا تو ان کے خلاف مقدمات کبھی نہ بنتے۔ درحقیقت عمران خان نے ملک لوٹنے والوں کی اصلیت سے عوام کو روشناس کرا دیا ہے جس کے بعد عوام کسی کے فریب میں آنے کو تیار نہیں۔ تعجب ہے عمران خان پر تنقید کرنے والوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھی ہوئی ہیں وہ تو ملک میں رہ کر جیل کاٹ رہا ہے جب کہ نوا ز شریف جیل جانے کے خوف سے ملک سے بھاگا ہوا ہے۔ نواز شریف کے سعودی عرب اور یو اے ای جانے کے بعد اس بات میں کیا شک رہ گیا ہے وہ صحت مند اور توانا ہیں لیکن وطن واپس آنے کو تیار نہیں۔ نواز شریف وطن میں رہ کر علاج معالجہ کرا لیتے یا جیل میں چند ماہ گزار لیتے تو عوام کی ہمدردیاں سمیٹ سکتے تھے۔ مان لیا عمران خان نے ساڑھے تین سالوں میں معاشی طور کچھ نہیں کیا اس کے برعکس عشروں تک حکمرانی کرنے والے نواز شریف نے ملک کو مقروض کیا۔ جہاں تک ایٹمی دھماکوں کا تعلق ہے یہ تو مرحوم مجید نظامی اور راجا ظفرالحق کی کاوشوں نے نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے پر مجبور کیا ورنہ وہ کبھی یہ کام نہ کرتے۔ گو عمران خان کی سیاسی جدوجہد نے مسلم لیگ نون کے ووٹ بینک کو بہت نقصان پہنچایا لیکن سولہ ماہ کی شہباز شریف کی حکمرانی نے رہی سہی کسر نکال دی اور اپنی جماعت کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ انتخابات کو حیلے بہانوں سے التواء رکھنے سے عمران خان کو عوام کے دلوں سے نکالا نہیں جا سکتا بلکہ جیل جانے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین عوام میں اور زیادہ مقبول ہو گئے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا ہم پہلے اپنے کالموں میں یہ بات کئی بار کہہ چکے ہیں عام انتخابات ابھی نہیں ہوں گے۔ نگران سیٹ آپ چلے گا، نئی حلقہ بندیوں میں کئی ماہ لگنے ہیں، جس کے بعد انتخابات کو مزید التواء میں رکھنے کے لئے کوئی نیا عذر نکال لیا جائے گا۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں پی ٹی آئی کے قیادت کے جیل جانے کے باوجود خائف ہیں۔ دراصل غریب عوام عمران خان کے سحر میں گرفتار ہو چکے ہیں انہیں ماضی میں حکمرانی کرنے والی سیاسی قیادت سے نفرت ہو چکی ہے۔ عام طور پر نواز شریف کو موٹر وے بنانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے یہ بات تو کوریا والوں سے پوچھیں کک بیکس کس نے وصول کئے۔ کوریا نے تو کک بیکس دینے والوں کو جیل میں ڈالا اور ہم نے کک بیکس لینے والوں کو اقتدار دے دیا۔ افسوس تو اس پر ہے لوٹ مار کرنے والوں سے کرپشن کی دولت واپس کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے الٹا ان کے خلاف مقدمات بنانے پر کثیر رقم خرچ کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچا یا گیا۔ بہرکیف نواز شریف وطن واپسی میں جتنی تاخیر کریں گے ان کی جماعت کے لوگوں میں ان کے خلاف شبہات میں اور اضافہ ہوتا جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button