معاشی استحکام کے اہم منصوبے

ضیاء الحق سرحدی
دنیا میں پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جہاں وسائل ہونے کے باوجود مسائل کی بھرمار ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارض پاک کو کس کس دولت اور نعمت سے نہیں نوازا لیکن بد قسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک جو بھی حکومت برسراقتدار آئی اس کے حکمرانوں اور بیوروکریٹس نے ملک کو ترقی دینے اور اس کے زیر زمین قدرتی خزانوں کو صحیح معنوں میں استعمال کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائیاں کرپشن کے ذریعے تجوریاں بھرنے اندرون و بیرون ملک بینکوں کے بیلنس بڑھانے پر صرف کیں۔ اگر کوئی بھی حکومت وطن عزیز کو قدرت کی جانب سے عطاء کئے گئے بیش بہا خزانوں کو صحیح طور پر استعمال میں لاتی تو سپر پاور امریکہ سمیت دنیا بھر کے بیشتر ممالک جھولی پھیلائے امداد کے طلبگار ہوتے۔ میں نے اپنے اس کالم میں وطن عزیز پاکستان کو دنیا کا امیر ترین ملک قرار دینے کا جو دعویٰ کیا ہے اس کی تصدیق کے لئے قارئین حضرات کی خدمت میں ٹھوس چند ثبوت پیش کر رہا ہوں تاکہ ہر پاکستانی کی آنکھیں کھل سکیں۔ قدرت کی کون کون سی دولت اور نعمت ایسی ہے جو کہ پاکستان میں موجود نہیں؟ یہاں تیل، گیس، سونا، چاندی، کوئلہ ،ماربل، جپسم، نیلم، زمرد اور دیگر ہیرے جواہرات کی کانیں، کھیوڑہ میں دنیا کی نمک کی دوسری سب سے بڑی کان، کاشتکاری کے لئے دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ، پانچ دریا اور ان پر بنائے گئے ڈیم، چار خوبصورت موسم بہار، خزاں، گرمی اور سردی، صحرائوں کی چمکتی ریت میں شیشے کے ذخائر، برف سے ڈھکے پہاڑوں کے لامتناہی سلسلے، پھل فروٹ کی اعلیٰ اقسام، گندم، چاول ، گنا، کپاس کے علاوہ بے شمار اجناس۔ غرض یہ کہ ارض پاک میں قدرت کی ایسی کون سی دولت ہے جو کہ یہاں موجود نہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو رب نے بے شمار نعمتوں نے نواز رکھا ہے، ضرورت صرف اس کی ہے کہ ارباب اختیار دیانتداری کے ساتھ منصوبہ بندی کریں، ذاتی مفادات اور تعصب سے ماورا ہو کر اپنا فرض ادا کریں تو اچھے نتائج آسکتے ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے لیکن ان وسائل کو درست طور پر کام میں نہیں لایا جاتا۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو زیر زمین قیمتی معدنیات سے نوازا ہے اور بیشتر ممالک نے معدنیات کو زمین سے نکال کر اپنی قسمت بدلی ہے۔ دنیا میں معدنیات بالخصوص آئل اور گیس رکھنے والے 10بڑے ممالک میں پہلے نمبر پر روس ہے جس کے معدنی ذخائر 75کھرب ڈالر ہیں جن میں کوئلہ، تیل، قدرتی گیس ، سونا اور لکڑی شامل ہیں ۔ دوسرے نمبر پر امریکہ جس کے معدنی ذخائر 45کھرب ڈالر ہیں جس میں 90فیصد کوئلہ اور ٹمبر کے علاوہ تانبا، آئل اور گیس شامل ہیں۔ تیسرے نمبر پر سعودی عرب جس کے معدنی ذخائر34کھرب ڈالر ہیں جو آئل ایکسپورٹ کرنیوالا بڑا ملک ہے۔ چوتھے نمبر پر کینیڈا جس کے معدنی ذخائر 33کھرب ڈالر ہیں جن میں آئل اور گیس شامل ہے۔ پانچویں نمبر پر ایران جس کے معدنی ذخائر 27کھرب ڈالر ہیں جس میں آئل اور گیس شامل ہیں۔ چھٹے نمبر پر چین جس کے معدنی ذخائر 23کھرب ڈالر ہیں جس میں کوئلہ، سونا اور المونیم وغیرہ شامل ہیں۔ ساتویں نمبر پر برازیل جس کے معدنی ذخائر 22کھرب ڈالر ہیں جس میں سونا، لوہا اور گیس شامل ہیں۔ آٹھویں نمبر پر آسٹریلیا جس کے معدنی ذخائر 20کھرب ڈالر ہیں جس میں کوئلہ، سونا، تانبا، ٹمبر اور یورینیم شامل ہیں۔ نویں نمبر پر عراق جس کے معدنی ذخائر 16کھرب ڈالر ہیں جس میں تیل اور گیس شامل ہیں۔ دسویں نمبر پر وینزویلا جس کے معدنی ذخائر 14کھرب ڈالر ہیں جس میں تیل، گیس اور لوہے کے ذخائر شامل ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھی 50کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر عطا کئے ہیں۔ جس میں تھر میں دنیا کے کوئلے کے دوسرے بڑے ( 185ارب ٹن) ذخائر، ریکوڈک میں تانبے کے پانچویں بڑے 6ارب ٹن ( 22ارب پائونڈ مالیت) ذخائر اور سونے کے چھٹے بڑے 42.5ملین اونس (13ملین پائونڈ مالیت) کے ذخائر پائے جاتے ہیں اور صرف ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت 500ارب ڈالر ہے لیکن ہم بدقسمتی سے ان معدنی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور دنیا کے سامنے کشکول لئے پھر رہے ہیں۔ میں سابق PDMحکومت اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے خصوصی سرمایہ کاری کونسل کا چوتھا فیگ شپ پراجیکٹ ڈسٹ ٹو ڈویلپمنٹ لانچ کیا تھا۔ جس کا مقصد ملکی معدنیات کی کان کنی اور ایکسپورٹ سے 6کھرب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری لانا ہے۔ اس سلسلے میں یکم اگست کو اسلام آباد میں پہلی منرل سمٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت 30ممالک کے سرمایہ کاروں اور کان کنی کے ماہرین نے شرکت کی۔ اس موقع پر یو اے ای نے 22ارب ڈالر اور سعودی عرب نے 40ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا جس میں پہلے مرحلے میں 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ ماضی میں کان کنی کے شعبے میں لائسنس اور این او سی لینے میں برسوں لگ جاتے تھے لیکن اب SIFCکے تحت نئی مائننگ پالیسی میں اسے دن ونڈو آپریشن کر دیا گیا ہے اور ریڈ ٹیپ کے بجائے ریڈ کارپٹ کا سلوگن پیش کیا ہے۔ پالیسی کے تحت بلوچستان اور دیگر صوبوں میں سرمایہ کاروں کو سیکیورٹی اور پالیسیوں کے تسلسل کی گارنٹی دی گئی ہے۔ نئی پالیسی ریکوڈک منصوبے پر بھی عملدرآمد ہوگا جس سے پہلے مرحلے میں 2025تک 4لاکھ میٹرک ٹن تانبا (3.7ارب ڈالر) اور 4لاکھ اونس سونا ( 718ملین ڈالر) سالانہ حاصل کیا جائے گا جس سے اُمید کی جاتی ہے کہ ریکوڈک منصوبہ بلوچستان کی ترقی اور پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر سعودی عرب اور ایران کے مجموعی 400ارب بیرل تیل کے ذخائر کے مساوی ہیں جن سے 200سال تک سالانہ ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن ہم 76 سال گزرنے کے باوجود اس کالے سونے کو زمین سے نکال کر بجلی پیدا نہ کر سکے اور بجلی پیدا کرنے کیلئے مہنگا فرنس آئل اور گیس امپورٹ کرتے رہے جس کا سبب ماضی کی طاقتور بیورو کریسی تھی جس نے بین الاقوامی آئل کمپنیوں کے دبائو پر تھر کول سے بجلی پیدا کرنے کی پالیسی نہ بننے دی اور یہ تاثر دیا کہ تھر کے کوئلے میں سلفر اور رطوبت زیادہ ہونے کے باعث بجلی نہیں بنائی جاسکتی لیکن اب تھر کے اسی کوئلے سے نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے 2منصوبے کامیابی سے 1980میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں جو ہماری مجموعی بجلی پیداوار کا تقریباً 18فیصد ہے جس میں 660میگاواٹ کا پہلا پراجیکٹ اینگرو کے ساتھ جولائی 2019میں مکمل ہوا اور 1320میگاواٹ کا سی پیک کے تحت دوسرا پراجیکٹ شنگھائی الیکٹرک کے ساتھ فروری 2023میں مکمل ہوا۔ پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر عالمی پابندیاں دہرا معیار ہیں کیونکہ جنوبی افریقہ میں 93فیصد، آسٹریلیا میں 78فیصد، پولینڈ میں 87فیصد، چین میں 79فیصد، قازقستان میں 75فیصد، بھارت میں 68فیصد، اسرائیل میں 58فیصد، یونان میں 54فیصد، مراکش میں 51فیصد، امریکہ میں 45فیصد اور جرمنی میں 41فیصد بجلی کوئلے سے پیدا کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں صرف 13فیصد بجلی کوئلے سے پیدا کی جارہی ہے حالانکہ عالمی معیار کے مقابلے میں پاکستان میں کاربن کا اخراج نہایت کم ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری کونسل سول اور عسکری قیادت کی مشترکہ مفادات کونسل ہے جس کا مقصد ترجیجی سیکٹرز زراعت، آئی ٹی اور معدنیات کے منصوبوں میں سرمایہ کاری لانا اور بیوروکریسی کی حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔





