Column

اسلام میں اقلیتوں کا تحفظ

عرفان اشتیاق
اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی نجی زندگی اور شخصی راز داری کا حق اسی طرح حاصل ہے جس طرح مسلمانوں کو، اس لیے کہ اسلامی قانون نے ان کے لیے یہ اُصول طے کیا ہے کہ جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ ان کو بھی حاصل ہوں گے اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر ڈالی گئی ہیں وہ ان پر بھی ہیں۔ اسلام خدائے واحد کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دبائو نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوتِ حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیں ہیں۔ اسلام کے پیغام حق کے ابلاغ کا قرآنِ حکیم نے یوں بیان کیا : ’’ ( اے رسول معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بحث ( بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو بے شک آپ کا رب اس شخص کو ( بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو ( بھی) خوب جانتا ہے ( القرآن، النحل، 16: 125)۔ اسلام نے ایسے طریق دعوت سے منع کیا جس سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو، دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے‘‘۔ اسلام شرفِ اِنسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرف انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جاسکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کرکے فراہم کی گئی: ’’ دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطل کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا ( ممکن) نہیں، اور اللہ خوب جاننے والا ہے‘‘۔ اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے: ’’ خبردار! جس کسی نے کسی معاہد ( اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے ( مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا‘‘۔ یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ مبارک میں اسلامی مملکت میں جاری تھا، جس پر بعد میں بھی عمل درآمد ہوتا رہا اور اب بھی یہ اسلامی دستورِ مملکت کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے: ’’ ایک مسلمان نے ایک اہل کتاب کو قتل کر دیا اور وہ مقدمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لیے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اہل ذمہ کا حق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاتل کے بارے میں قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے قتل کر دیا گیا‘‘۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقلیتوں کے بارے مسلمانوں کو ہمیشہ متنبہ فرماتے تھے، چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاہدین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :’’ جس کسی نے کسی معاہد ( اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جنت سے بہت دُور رکھا جائے گا دراصل یہ تنبیہات اس قانون پر عمل درآمد کروانے کے لیے ہیں جو اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عطا کیا۔ غیر مسلموں کے جو بیرونی وفود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آتے، ان کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود میزبانی فرماتے چنانچہ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا:’’ یہ لوگ ہمارے ساتھیوں کے لیے ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں بذات خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں‘‘۔ ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا14رکنی وفد مدینہ منورہ آیا۔ آپ نے اس وفد کو مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا اور اس وفد میں شامل مسیحیوں کو اجازت دی کہ وہ اپنی نماز اپنے طریقہ پر مسجد نبویؐ میں ادا کریں، چنانچہ یہ مسیحی حضرات مسجد نبویؐ کی ایک جانب مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان تعلیمات کی روشنی میں 14سو سال گزرنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہر اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کو حقوق کا تحفظ حاصل رہا۔ اقلیتوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ ان کا برتائو بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ احترام پر مبنی تھا۔ ایک جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حلیف ایک یہودی جب مرنے لگا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تیری بڑی جائیداد ہے اس کا وارث کون ہو گا؟ تو اس یہودی نے کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری جائیداد کے وارث ہوں گے۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں سے حسن سلوک کا ایک غیر مسلم کی طرف سے اعتراف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین ( بت پرست اقوام) سے بھی جو برتائو رہا اس کی بھی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ مشرکین مکہ و طائف نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک انصاری کمانڈر سعد بن عباد نے ابوسفیان سے کہا :’’ آج لڑائی کا دن ہے‘‘۔ یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ناراض ہو گئے اور ان سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس کے سپرد کر دیا اور ابوسفیان سے فرمایا : ’’ ( آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج رحمت کے عام کرنے ( اور معاف کر دینے) کا دن ہے۔’’ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے مخالفین سے پوچھا کہ بتائو میں آج تمہارے ساتھ کیا برتائو کروں گا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خطا کار بھائیوں کے ساتھ برتائو کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی وہی توقع ہے۔ اس جواب پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہی جملہ ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے فرمایا تھا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بڑا دُشمن ابوسفیان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا من دخل دار ابی سفیان فہو آمن ( جو ابوسفیان کے گھر میں آج داخل ہوا وہ امن میں ہے)۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان کو اس طرح پورا کیا کہ جو بھی اس دن ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے امان مل گئی۔ مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کرنے میں سب سے زیادہ دو اشخاص کا دخل تھا وہ ابولہب کے بیٹے تھے، جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایذائیں دی تھیں۔ فتح مکہ کے روز یہ دونوں گستاخ کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے جا چھپے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان دونوں کو خود پردوں کے پیچھے سے نکالا اور معاف کر دیا۔ امام ابو یوسف اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’ کتاب الخراج‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں تعزیرات اور دیوانی قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا: دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انا اکرم من وفی ذمتہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس تعلیم پر عمل درآمد کے بے شمار نظائر دور خلافت راشدہ میں بھی ملتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان کو پکڑ کر لایا گیا جس نے ایک غیر مسلم کو قتل کیا تھا۔
پورا ثبوت موجود تھا۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قصاص میں اس مسلمان کو قتل کئے جانے کا حکم دیا۔ قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو معاوضہ دے کر معاف کرنے پر راضی کر لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے فرمایا:’’ شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرا دھمکا کر تجھ سے یہ کہلوایا ہو‘‘۔ اس نے کہا نہیں بات دراصل یہ ہے کہ قتل کئے جانے سے میرا بھائی تو واپس آنے سے رہا اور اب یہ مجھے اس کی دیت دے رہے ہیں، جو پسماندگان کے لیے کسی حد تک کفایت کرے گی۔ اس لیے خود اپنی مرضی سے بغیر کسی دبائو کے میں معافی دے رہا ہوں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا تمہاری مرضی۔ تم زیادہ بہتر سمجھتے ہو۔ لیکن بہرحال ہماری حکومت کا اُصول یہی ہے کہ: ’’ جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اس کا خون اور ہمارا خون برابر ہے اور اس کی دیت ہماری دیت ہی کی طرح ہے‘‘۔ اسلامی ریاست میں تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہوگی۔ دیوانی قانون میں بھی ذمی اور مسلمان کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد اموالھم کاموالنا کے معنی ہی یہ ہیں کہ ان کے مال کی ویسی ہی حفاظت ہونی چاہیے جیسی مسلمانوں کے مال کی ہوتی ہے۔ اس باب میں ذمیوں کے حقوق کا اتنا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا ان کے خنزیر کو بھی تلف کر دے تو اس پر ضمان لازم آئے گا۔ ذمی کو زبان یا ہاتھ پائوں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا، اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز ہے۔ ’’ غیر مسلم سے اذیت کو روکنا اسی طرح واجب ہے جس طرح مسلمان سے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے‘‘۔ شریعت کی یہ حکمت عملی ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے مذہب و مسلک پر برقرار رہنے کی پوری آزادی ہوگی۔ اسلامی مملکت ان کے عقیدہ و عبادت سے تعرض نہ کرے گی۔

جواب دیں

Back to top button