Column

دیا جلائے رکھنا ہے

رفیع صحرائی
دریائے ستلج اس وقت شدید طغیانی کی لپیٹ میں ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہیڈ گنڈا سنگھ سے لے کر بہاولنگر تک دریائی علاقے کی تمام زرعی زمینیں زیرِ آب ہیں۔ فصلیں تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔ ہزاروں مویشی پانی کی نذر ہو گئے ہیں۔ لوگوں نے درختوں پر پناہ لے رکھی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں کچے اور پکے مکانات گر چکے ہیں۔ شدید گرمی اور حبس کا موسم ہے۔ پانی کی سطح پر سانپوں کی بہتات ہے۔ بہت سی قیمتی جانیں سانپوں کے ڈسنے اور ڈوبنے کی وجہ سے ضائع ہو چکی ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ہیڈ گنڈا سنگھ کے علاقے میں مگرمچھ بھی دیکھا گیا ہے جس نے خوف کی فضا میں اضافہ کر دیا ہے۔
حکومت پنجاب کی جانب سے فلڈ ریلیف کیمپ قائم کر دئیے گئے ہیں جہاں پر سیلاب متاثرین پناہ گزین ہیں۔ مگر انہیں شکایت ہے کہ حکومت پنجاب کی طرف سے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔
مجھے اگست 1988ء کا دریائے ستلج میں آنے والا پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب یاد آ رہا ہے۔ میں اس وقت نوجوان تھا۔ تحصیل دیپال پور کے بہت بڑے سیاسی رہنما مرزا احمد بیگ مرحوم اس وقت حیات تھے۔ بہت دلیر، معاملہ فہم اور دردِ دل رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں اگلے مورچوں پر عملی طور پر حصہ لیا تھا۔ ان کا تعلق منڈی ہیراسنگھ ( موجودہ منڈی احمد آباد) سے تھا۔ 1988ء کے سیلاب میں اس مردِ مجاہد نے سیلاب متاثرین کی عملی طور پر مدد کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ پاک فوج کے شانہ بشانہ سیلاب متاثرین کو ریسکیو کرتے رہے۔ قریباً دو ہفتے انہوں نے کشتی میں گزار دیے۔ اس تمام عرصے میں وہ گھر نہیں گئے۔ وہ دریا پار کے دور دراز علاقوں سے متاثرین سیلاب کو محفوظ مقامات پر منتقل کرتے رہے۔ اندھیرا چھا جاتا تو اسی کشتی میں سو جاتے تھے۔ ان کے پاس دوستوں کی بہت بڑی ٹیم تھی۔ نوجوان ان کے دیوانے تھے۔ ان کے دیرینہ ساتھی حاجی محمد عبداللہ دیسی گھی والے کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش رہیں۔ شہر کے لوگ ان تک خشک راشن پہنچا دیتے۔ وہ اپنی نگرانی میں کھانے کی دیگیں پکواتے اور ٹرالیوں پر لوڈ کرواتے۔ الیون سٹارز کرکٹ کلب کی پوری ٹیم کے علاوہ شہر کے دوسرے نوجوان بھی یہ کھانا سیلاب متاثرین تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتے جبکہ مرزا احمد بیگ اپنی کشتی میں کھانے کی دیگیں لے کر سیلاب میں گھرے ہوئے ان لوگوں تک کھانا پہنچاتے جنہوں نے درختوں اور اونچی جگہوں پر پناہ لے رکھی تھی۔ وہ اپنی املاک کو لے کر وہاں پناہ گزیں تھے۔ مرزا احمد بیگ کی شیر دل قیادت میں نوجوان 1988ء میں جہادی جذبے کے ساتھ اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے عملی کارروائیوں میں لگے ہوئے تھے۔
آج 2023ء ہے۔ وہی اگست کا مہینہ ہے۔ سیلاب کی صورتِ حال بھی کم و بیش 35سال پہلے والی ہے۔ آج مرزا احمد بیگ جنت مکانی ہو چکے ہیں مگر اپنے پیچھے خدمت کی ایسی لازوال داستان چھوڑ گئے ہیں جو علاقہ بھر کے لوگوں کے دلوں پر نقش ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ دو دن پہلے میں نے دوستوں کو 1988ء کے واقعات یاد دلاتے ہوئے سیلاب زدگان کی حالتِ زار کا ذکر کیا تو میری پکار پر لبیک کہنے والی سب سے پہلی شخصیت چودھری افتخار حسین چھچھر سابق ایم پی اے کی تھی جنہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ امدادی کارروائیاں شروع کر دیں۔ خود موٹربوٹ لے کر سیلاب میں گھرے لوگوں کے پاس پہنچے اور انہیں ریسکیو کیا۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیم نی ظفر سعید اور حاجی محمد عبداللّٰہ کے صاحبزادے حاجی سیف اللّٰہ کی قیادت میں اپنی مدد آپ کے تحت کھانے کی دیگیں پکوا کر سیلاب زدگان تک کھانا پہنچایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ سیلاب اترنے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ میٹرک فیلوز 2004ء ایک فلاحی تنظیم ہے جو نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ اس تنظیم کے روحِ رواں غلام اکبر بھولا کی قیادت میں نوجوانوں نے کمال کر دیا ہے۔ یہ کھانے تیار کروا کر دریا کے اندر گھرے ہوئے ان لوگوں تک پہنچا رہے ہیں جو درختوں اور ٹیلوں پر پناہ گزیں ہیں۔ بہت بڑے سیلاب کے دوران دریا کے سینے کو چیرتے ہوئے ضرورت مندوں تک کھانا پہنچانا بہت بڑی نیکی ہی نہیں، جان جوکھوں اور دلیری کا بھی کام ہے۔ مرزا احمد بیگ کے بیٹے مرزا علی رضا بیگ بھی تیار کھانا سیلاب زدگان تک پہنچا رہے ہیں اور انہوں نے بھی سیلاب اترنے تک یہ سلسلہ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ حکیم سعد سرور اور چودھری مظہر زاہدی کی قیادت میں انجمن آرائیاں بھی متحرک اور فعال ہے۔ وہ بھی اپنی نگرانی میں کھانا تیار کروا کر سیلاب زدگان تک پہنچا رہے ہیں۔ بعض مقامی زمینداروں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے شکار لوگوں کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کر دئیے ہیں۔ وہ ان کے لیے اپنی رہائش گاہیں آفر کر رہے ہیں۔ مویشیوں کے لے مفت چارہ دے رہے ہیں۔ علاقہ بھر سے لوگ دو، تین خاندانوں کو رہائشی سہولیات کی پیشکش کر رہے ہیں۔
علاقہ منڈی احمد آباد کے لوگوں نے مواخاتِ مدینہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ کردار بدل گئے ہیں مگر روایت وہی برقرار ہے۔ 1988ء کے مجاہدوں کی اولادیں آج میدانِ عمل میں ہیں۔
حکومت ہر جگہ اور شخص تک نہیں پہنچ سکتی۔ حکومت کا ہاتھ بٹانا وقت کا تقاضا بھی ہے اور سیلاب زدگان کی مدد کرنا ہم پر فرض بھی ہے جسے میرے نوجوان قرض سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔ یہ وطن ہمارا ہے۔ اس کا ایک ایک انچ ہمیں پیارا ہے۔ اس کا ہر باسی ہماری آنکھوں کا تارا ہے۔ مشکل کی ہر گھڑی میں ہمیں امداد اور خدمت کا دیا جلائے رکھنا ہے۔
موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے، گھر تو آخر اپنا ہے

جواب دیں

Back to top button