Column

اب ٹوئٹ ( چوں چوں ) کا کیا فائدہ

محمد ناصر شریف
ثبوت آج بھی میری کتاب میں ہے اسد، وہ ایک رقعہ ترا تیرے دستخط کے ساتھ، اب ایوان صدر میں دستخط کون کر رہا ہے، ملکی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے تو گلا پھاڑ پھاڑ کر دستخط کی نوید سنائی۔ لیکن صدر تو کہہ رہے ہیں میں نے نہیں کئے، اللہ گواہ ہے۔ میں متفق ہی نہیں تھا۔ صدر بھی خوب ہیں قانون بننے کے بعد ٹوئٹ ( یعنی چوں چوں ) کر رہے ہیں۔ چھٹی کے دن اتوار کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس ( ٹوئٹر +چوں چوں) پر جاری بیان میں عارف علوی نے کہا کہ خدا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023پر دستخط نہیں کئے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔ انہوں نے لکھا کہ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تا کہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا کہ میں نے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا ( وہ) دستخط کے بغیر واپس بھجوائے جاچکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ واپس بھجوائے جاچکے ہیں تاہم مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شاء اللہ معاف کر دے گا لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔ گزشتہ روز صدر مملکت کے دستخط سے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل دونوں مجوزہ بل قانون کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ صدر کے ٹوئٹ ( چوں چوں) کے بعد نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور نگران وفاقی وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت کے پاس دوبلوں کی منظوری کیلئے دس دن موجود تھے، ان پر اعتراض عائد کر کے واپس کر سکتے تھے ، انہوں نے ایسا نہیں کیا ، مدت پوری ہونے پر بل قانونا منظور ہو گئے، تیسرا کوئی راستہ نہیں، صدر مملکت کے اسٹاف کا سامنے آکر وضاحت دینا نا مناسب عمل ہوگا، ہمیں ایوان صدر سے بل واپس موصول ہوئے ہی نہیں تو ہمیں بلوں پر صدر کے اعتراض کا کیسے پتا چلے گا ؟، وزارت قانون کی پریس ریلیز کے بعد ابہام ختم ہو گیا ہے، ہم معاملے میں ایوان صدر کا کوئی ریکارڈ قبضے میں نہیں لیں گے، اگر صدر مملکت کا اسٹاف ان کے اپنے اختیار میں نہیں تو یہ ان کا معاملہ ہے ، نگراں حکومت کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ، ہم سیاسی گفتگو سے گریز کریں گے۔ مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ صدر مملکت عارف علوی نے اپنے ذاتی اکائونٹ سے پارلیمان کی طرف سے بھیجے گئے دو بلوں سے متعلق ٹوئٹ کیا۔ مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ کسی قسم کا کوئی بھونچال نہیں آیا، صورتحال سب واضح ہے۔ ضروری ہے کہ قانونی نکات کی وضاحت کی جائے۔ نگران وزیر قانون نے کہا کہ نگراں حکومت کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہوتا، ہمارا مینڈیٹ محدود ہے، صدر مملکت وفاق کے سر براہ ہیں، ان کی تعظیم ہم سب کے دلوں میں ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ پاکستان آرمی بل ( ترمیمی) بل 27جولائی 2023ء کو سینیٹ سے پاس ہوا، ایوان صدر کو یہ بل 2اگست کو موصول ہوا، آفیشل سیکرٹ ( ترمیمی) بل یکم اگست کو قومی اسمبلی نے منظور کر کے سینیٹ کو بھجوایا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ نے اس بل پر کچھ آبزرویشنز لگا کر قومی اسمبلی کو بھیجا، قومی اسمبلی نے اس بل کو 7اگست کو منظور کیا۔ نگران وزیر قانون نے کہا کہ صدر مملکت کو پاکستان آرمی ( ترمیمی) بل 2023ء 2اگست کو اور آفیشل سیکرٹ ( ترمیمی) بل 2023ء ایوان صدر کو 18اگست کو موصول ہوا، جب کوئی بل صدر کو بھیجا جاتا ہے تو صدر کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلا اختیار صدر اس بل کی منظوری دے دیں، دوسرا اختیار یہ ہے کہ صدر کی اگر کوئی آبزرویشنز ہیں تو تحریری انداز میں بھجوائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 75کے تحت کوئی تیسرا اختیار نہیں، یہ دونوں اختیارات استعمال کرنے کے لئے 10دن کا وقت آئین میں تعین کیا گیا ہے، صدر مملکت کے پاس 10دن کا وقت تھا، صدر مملکت نے ماضی قریب اور ماضی بعید میں بہت سے قوانین میں اختیارات کو استعمال کیا۔ نگران وزیر قانون عرفان اسلم نے کہا کہ صدر نے بہت سے قوانین میں آبزرویشنز دیں اور بل واپس بھی بھجوائے، آج سے پہلے ایسی کوئی صورتحال ہمارے سامنے نہیں آئی کہ ایوان صدر سے بغیر دستخطوں کے کوئی چیز واپس گئی ہو۔ ادھر صدر عارف علوی نے مختلف آپشنز پر غور شروع کر دیا ہے۔ ذرائع ایوان صدر کے مطابق صدر معاملے کو سپریم کورٹ لے جانے پر مشاورت کر رہے ہیں۔ عارف علوی مستعفی ہونے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ صدر کے عہدے کہ آئینی مدت 9ستمبر کو مکمل ہو رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر کی طرف سے جلد بڑا فیصلہ متوقع ہے۔ بعض قریبی ساتھیوں نے مدت سے پہلے مستعفی نہ ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ دوسری طرف آفیشل سیکر ٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے مسودوں پر صدر مملکت کے دستخط کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف نے عدالت عظمی سے فوری رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے قومی و عدالتی سطح پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے موقف کی بھر پور تائید و حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اہم ترین قانونی مسودہ جات کی توثیق کے عمل پر صدر مملکت کا موقف ہر لحاظ سے غیر معمولی اور سنجیدہ ترین اقدامات کا متقاضی ہے۔ پیپلز پارٹی نے صدر مملکت عارف علوی کا طبی معائنہ کرانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ جماعت کے سیکرٹری جنرل نیئر بخاری نے کہا کہ صدر عارف علوی کا ٹوئٹ انکی ذہنی صورتحال پر سوالیہ نشان ہے۔ صدر آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور پارٹی قیادت کا پی ٹی آئی کو پاکستانیت تقسیم انتشار قرار دینا درست ثابت ہو گیا۔ عارف علوی نے پی ٹی آئی کارکن اور عمران خان کے ذاتی ملازم کا کردار ادا کر کے گھنائونی سازش کے مرتکب ہوئے ہیں۔ نیئر بخاری نے کہا کہ آئین کے تحت صدر مملکت نے بل منظور کئے اور نہ ہی اعتراض کئے ۔ پارلیمنٹ سے منظور کردہ بلز محدود مدت ختم ہونے کے بعد نافذ العمل ہو جاتے ہیں۔ صدر کی دستخط نہ کرنے بارے وضاحت صدی کا سب سے بڑا مذاق ہے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ صدر مملکت کے ٹویٹ نے قانون کے مقابلہ میں زیادہ حقیقی کے سوالات کو جنم دیا ہے، آئین 1973ء کے آرٹیکل 50کے تحت صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہے، صدر کے بیان کی سینیٹ کمیٹی آف ہول کے ذریعے تحقیقات کرائی جائے، سابق وزیر داخلہ مسلم لیگ ( ن) کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ صدر مملکت نے ٹوئٹ کر کے ریاست کو شرمندہ کرنے والا کام کیا ہے، اس اقدام سے نا صرف اس منصب کی توہین کی گئی ہے بلکہ ریاست کو ایک مشکل اور آئینی بحران میں مبتلا کر دیا گیا ہے صدر کو ٹوئٹ کرنے کے بجائے اس کی انکوائری کرا کے ذمہ داری فکس کرنی چاہئے تھی ۔ صدر مملکت یا وزیر اعظم کے عملے میں انتہائی منجھے ہوئے افسران ہوتے ہیں، یہ خاص اعتماد کے لوگ ہوتے ہیں۔ صدر مملکت کو ٹوئسٹ نہیں کرنا چاہئے تھا بلکہ اس کی انکوائری کرنی چاہئے تھی۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا بیان مبالغہ آرائی کے مترادف قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں اسحاق ڈار نے کہا کہ صدر علوی کا استعفیٰ اس نا قابل یقین صورتحال کا کم از کم اخلاقی تقاضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت موثر انداز میں دفتری کام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمیں تو اب اس ٹوئٹ ( چو ں چوں ) کا ملک کی بدنامی کے سوا کوئی اور مقصد نظر نہیں آتا۔ ہوسکتا ہے موصوف اپنے عہدے کی معیاد مکمل ہونے سے قبل اپنے پارٹی سربراہ کی نگاہوں میں معتبر ہونا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی جنگل میں چوں چوں کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے۔ اور ٹوئٹر تو ایسی چیز ہے کہ جس پر بہت سارے پرندے جن کا کوئی ٹھکانا نہیںہوتا وہ آکر خوب چوں چوں کرتے ہیں اور تھک کر اڑ جاتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button