Column

خطرے کی کوئی بات نہیں

تحریر : سیدہ عنبرین
نگران حکومت کے قیام کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا، لیکن مختلف حلقوں میں پائی جانے والی تشویش کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے، ہر شخص کی آنکھوں میں کچھ سوال ہیں لیکن کوئی ان سوالوں کا جواب دینے کیلئے آمادہ نہیں حتیٰ کہ وہ بھی نہیں جو ایک جمع ایک کرکے گیارہ بتا دیا کرتے ہیں اور دو جمع دو سے بائیس، ان سے سوال پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے، بس دیکھتے جائو یا یہ کہ کچھ انتظار اور کرلو، جس طرح بچے کے پائوں پالنے میں نظر آجاتے ہیں اسی طرح نگران وزیراعظم اور کابینہ کا انتخاب دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ عزائم کیا ہیں، کیا کر دکھائیں گے اور کیا کرنا ان کے بس میں نہیں یاد رہے باپ بہت کچھ کر سکتا ہے وہ کچھ خاص کرنے آیا ہے، نگران وزیراعظم کا تعلق کبھی مسلم لیگ سے رہا ہے پھر وہ باپ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی کے روح رواں رہے ہیں، ان کے انتخاب سے چند روز قبل یہی بتایا جارہا تھا کہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی مصروفیت کے سبب ان کی وزیراعظم سے ملاقات نہیں ہورہی، پاکستان کی تاریخ کے وہ پہلے اپوزیشن رہنما تھے جو بہت مصروف تھے اور تمام فرینڈلی اپوزیشن رویے کے باوجود ان کے پاس اس وقت کے وزیراعظم کو ملنے کیلئے وقت نہ تھا، شہباز شریف کی آخری ایام میں مصروفیت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، اُنہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیت کے سبب یا شاید عوام میں گھل مل جانے کیلئے اپنا گارڈ آف آنر ملتوی کرایا، وہ صبح لاہور پہنچے، رات لاہور رہے پھر جس سے بھی گھلنا ملنا تھا، اس سے فارغ ہوکر اسلام آباد پہنچے، جہاں یہ خبر پھیلائی جاچکی تھی بلکہ اسے ایک منظم انداز میں مشتہر کیا جارہا تھا کہ نگران وزیراعظم، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مرضی سے نہیں آرہے بلکہ انہیں تو متوقع نگران وزیراعظم کے نام کا بھی علم نہیں، راجہ ریاض اور شہباز شریف جیسا بھولا بھی
دنیا میں کوئی نہ ہوگا۔ پھیلائی جانے والی خبر کا دوسرا حصہ زیادہ اہم تھا کہ نگرانوں کو کوئی اور لارہا ہے۔ فرض کر لیجئے ایسا ہی تھا تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں وہی تو شہباز شریف اور راجہ ریاض کو لے کر آئے تھے۔ دو بڑی سیاسی حریف نہیں بلکہ حلیف سیاسی جماعتیں اور ان کے زمانے کی معصوم اپوزیشن اس انتخاب سے اپنے آپ کو علیحدہ علیحدہ دور دور کیوں رکھ رہی ہیں اور کیوں یہ چاہتی ہیں کہ تاثر قائم ہو کہ یہ سب کچھ ان کا کیا دھرا نہیں ہے، وہ سب کچھ کرنے کے بعد ذمہ داری کسی اور کے سر پر ڈالنا چاہتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کیا انہیں معلوم ہے کچھ ایسا ہونے جارہا ہے، جیسے بعد ازاں کہا جاسکے گا کہ منہ کالا ہوگیا یا کر دیا گیا۔ نگران حکومت کو پہلی سلامی پاکستان ریلویز نے دی ہے، ٹرین کا پٹری سے اترجانا اور درجنوں افراد کا اس حادثے کے نتیجے میں جاں بحق ہوجانا پرانی کہانی ہے، ریلوے حادثے کا نہ پہلے کوئی وارث بنا نہ آج کوئی ذمہ دار ٹھہرا، سب کچھ مکینکل فالٹ قرار پاتا ہے، سب بچ نکلتے ہیں، ریلویز کے ایک سینئر ترین افسر نے ریٹائر ہونے کے بعد ایک ملاقات میں بتایا کہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ٹرین حادثے میں سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے تھے، جس میں غلط کانٹا بدلا گیا اور ٹرینیں آمنے سامنے ٹکرا گئیں، ذمہ دار عملہ اس وقت لڈو کھیل رہا تھا، جس میں جوا ہورہا تھا، ایک شخص کی گوٹی پٹنے والی تھی، اس نے وہاں سے ہلنا مناسب نہ سمجھا اور چپڑاسی سے کہا کہ کانٹا بدل دے، وہ گیا اس نے ایسا کانٹا بدلا کہ سو سے زیادہ کا کانٹا نکل گیا، حادثے کی اطلاع ملنے کے باوجود لڈو کی وہ بازی جاری رہی۔ کوئی ملزم ٹھہرا نہ کسی کو سزا ہوئی، ریلوے کے چال چلن میں کوئی تبدیلی نہیں، نگران وزیراعظم اور حکومت کو دوسری سلامی تخریب کاروں نے جڑانوالہ میں دی ہے، جبکہ حکومت نے اہل پاکستان کو بھرپور سلامی پٹرول میں قیمت کے اضافے کی صورت دی ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں نگرانی کیلئے آنے والے کرنسی کی قیمت کریں گے جس سے سب کچھ تہہ و بالا ہوجائے گا۔ نگران کابینہ میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن کے کوٹے سے وزیر بننے والوں کی تعداد زیادہ ہے، پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ ان کا اس تمام سیٹ اپ سے کوئی تعلق نہیں، دو اہم وزارتیں، وزیر خارجہ اور وزیراطلاعات پیپلز پارٹی کی طرف سے آئے ہیں، محمد علی، مشعال ملک اور انور علی حیدر راولپنڈی کے نمائندے ہیں، شاہد اشرف، گوہر اعجاز، عمر سیٹ، شمشاد اختر، احد چیمہ کے حروف ایجد میں سے ’’ ن ‘‘ کو پسند کرتے ہیں، کچھ شخصیات کا تعلق علم و ادب اور فنون لطیفہ سے ہے، سب سے اہم یہی شخصیات ہیں انہیں آپ کابینہ کا سنگھار کہہ سکتے ہیں، ان کی ذمہ داری قوم کو اچھی اچھی باتیں بتانا تمیز و تہذیب سکھانے کے علاوہ ہر وقت اللہ سے ڈراتے رہنا ہوگا، جبکہ نگران وزیراعظم اور خاص خاص وزرا کا کام بغیر کسی ڈر خوف کے قوم کی خدمت کرنا طے کیا گیا، بس وہ کسی سے نہیں ڈریں گے اور ایجنڈے کو آگے بڑھائیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عام انتخابات بھی کرائیں گے، وہ کوئی اور پھر کبھی کرائی گا، خطرے کی کوئی بات نہیں۔

جواب دیں

Back to top button