Column

مذہبی شعائر کی تقدیس اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع

دُنیا بھر میں آئے روز طرح طرح کے دل خراش حادثات، افسوس ناک واقعات اور دل سوز سانحات سوشل میڈیا کی وساطت سے پڑھنے ، سننے اور دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ ان ہی واقعات میں سے ایک واقعہ وطن عزیز ملک پاکستان کے مشہور شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب کو پیش آیا جس میں عیسیٰ نگری نامی علاقے کے چند کرسچن نوجوانوں کی جانب سے قرآن مجید کے مقدس اوراق کی مبینہ بے حرمتی کی گئی تھی اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرکے ان سے کھیلنے کی کوشش کی گئی تھی۔ بعد ازاں قرآن مجید کی بے حرمتی کے اس واقعہ کی اطلاعات جب اگلے دن علیٰ الصبح سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں تو اُس کے ردّ عمل کے طور فجر کی نماز کے بعد مشتعل افراد کی ایک بڑی تعداد علاقے میں جمع ہونے لگی اور پھر علاقہ بھر میں حسب روایت توڑ پھوڑ، غارت گری اور مظاہروں کا ایک شدید سلسلہ شروع ہوگیا۔ صبح نو بجے کے قریب چند مشتعل افراد سینما چوک کے پاس اکٹھے ہوئے اور انہوں نے عیسائی برادری کے دو درجن گھر مسمار کئے۔ عیسیٰ نگری محلے میں پہلے ایک چرچ کو اور پھر اس سے سوا کلو میٹر کے فاصلے پر ٹیلی فون ایکسچینج کے قریب موجود دوسرے چرچ کو اور اس کے بعد ایک تیسرے چرچ کو بھی نشانہ بنا ڈالا۔ مظاہرین کی تعداد اس قدر زیادہ اور پُرجوش تھی کہ پولیس کی بھاری نفری تعینات ہونے کے باوجود بھی اُن کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام رہی۔
جڑانوالہ کا یہ واقعہ اپنے اندر دو پہلو لیے ہوئے ہے۔ ایک مذہبی شعائر کی تعظیم و تقدیس کا اور دوسرا اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا۔ جہاں تک مذہبی شعائر کی تعظیم و تقدیس کی بات ہے تو یہ بات مسلم ہے کہ کوئی بھی مذہب اپنے ماننے والوں کو اس قسم کی گھٹیا حرکتوں اور مذموم افکار کی اجازت نہیں دیتا، اور نہ ہی کسی مذہب میں اس قسم کے افکار و نظریات کا پرچار کیا جاتا ہے۔ بلکہ تمام ہی مذاہب اپنے مخالف دیگر تمام ہی مذاہب کے مذہبی شعائر، مقدس تعلیمات اور معظم شخصیات کے خلاف کسی بھی قسم کا ناروا سلوک رکھنے ، ان کو توہین و بے حرمتی کرنے اور اُن کے استہزاء سے سختی سے منع کرتے ہیں۔
پاکستان میں پیش آنے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی متعدد بار قرآن مجید کی توہین و بے حرمتی کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ اس پر 1982ء میں دفعہ B۔295کے تحت قرآن مجید کی بے حرمتی کی سزا عمر قید مقرر کی گئی تھی۔ اور بعض مسیحی افراد اس جرم میں گرفتار بھی کئے گئے اور اُن پر سزا بھی عائد کی گئی ، لیکن پھر مسیحی برادری کی اندرون و بیرون ملک سازشوں کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ان کی یہ سزا معطل ہوگئی بلکہ قرآن مجید کی بے حرمتی کا یہ آئین بھی تعطل کا شکار ہوکر برائے نام ہوکر رہ گیا۔
اب اس تناظر میں سب سے پہلے تو مسیحی برادری سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو دیگر مذاہب کے عشائر، اُن کی عبادت گاہوں اور اُن کی معظم شخصیات کی توہین و بے حرمتی کرنے سے روکے، اُن کے مشتعل جذبات کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کرے اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش کرے، تاکہ اس قسم کے دل خراش واقعات کے دیکھنے میں کمی آئے اور دوسرے نمبر پر ارباب بسط و کشاد کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ قرآنِ مجید کی بے حرمتی کے خلاف بنائے گئے آئین کو ملک میں دوبارہ نافذ کرکے اس پر عمل در آمد کو یقینی بنائے تاکہ اگر سمجھانے بجھانے کے باوجود بھی کوئی دماغ پھرا اپنے شیطانی جذبات پر قابو پانے سے قاصر رہ رہا ہے تو پھر اُس کو آئینی طور پر کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ اس قسم کے شیطانی کھیل کا قلع قمع ہو اور مسلمان بلکہ دیگر مذاہب والے اقلیت اقوام بھی مذہبی آزادی کے ساتھ رہ کر بلا خوف و خطر اپنے مذہب پر عمل پیرا رہ سکیں۔
اور جہاں تک اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات ہے تو یہ امر اسلام کی ابدی تعلیمات اور قرار دادِ پاکستان میں جلی حروف میں سنہرے الفاظ میں لکھا ہوا موجود ہے کہ اسلام بلا امتیاز رنگ و نسل، مذہب و قوم ، اور عقیدہ و نظریہ سب کے ساتھ مساوات کی تعلیم دیتا ہے۔ چناں چہ پاکستان دستور ساز اسمبلی نے 12مارچ 1949ء کو جب قرار دادِ مقاصد منظور کی اور ایک قانونی دستاویز بنائی تو اس میں تمام باشندگانِ پاکستان کو مساوی حقوق دینے کی یقین دہانی کرائی گئی اور اس بات کی واشگاف الفاظ میں تصریح کی گئی کہ پاکستان میں بلا امتیاز رنگ و نسل، مذہب و قوم ، اور عقیدہ و نظریہ سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے گا۔
مسیحی برادری کی طرح ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ اگر کسی موقع پر کوئی تہی دامن بد قسمت شخص اسلام کے مذہبی شعائر ، اُس کی عبادت گاہوں، اور اُس کی قابل احترام شخصیات کے خلاف کوئی شیطانی کھیل کھیلتا ہے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں تو ازراہِ کرم آئین و قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے ان کے نافذ کرنے والے اداروں تک اپنی شکایت پہنچائی جائے اور ملزم شخص کے مبنی بر صداقت تمام تر شواہد و الزامات مہیا کرکے ان کے سامنے رکھے جائیں اور اُن سے مذکورہ شخص پر آئین و قانون کے مطابق سزا نافذ کرنے کا پُر زُور مطالبہ کیا یا جائے، تو یقینا قانون ساز اداروں میں آپ کی بات کی شنوائی ہوگی ، آپ کے مجروح قلب و جگر کی ضرور مرہم پٹی کی جائے گی اور مذکورہ ملزم شخص کو کیفر کردار تک پہنچا کر اسے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ آپ ایک بار آزما کر تو دیکھئے!

جواب دیں

Back to top button