ColumnFayyaz Malik

محسن نقوی۔ ایک مختلف نگران وزیر اعلیٰ پنجاب

فیاض ملک

صوبہ پنجاب کی سیاسی تاریخ میں کا جائزہ لیا جائے تو قیام پاکستان سے لیکر آج تک مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 20سیاست دان بطور وزرائے اعلیٰ حکمران رہے ، جبکہ اگر نگران وزرائے اعلیٰ کی بات کی جائے تو پہلی مرتبہ 19 جولائی،1993ء کو نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر منظور الٰہی سامنے آئے تھے جو کہ 20اکتوبر، 1993ء تک نگران وزیر اعلیٰ رہے جبکہ میاں افضل حیات نے 16نومبر 1996ء سے20فروری 1997ے تک نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دئیے، اسی طرح شیخ اعجاز نثار 19نومبر 2007ء سے 11اپریل 2008ء جبکہ معروف صحافی نجم سیٹھی 27مارچ 2013ء سے 7جون 2013ء اس عہدے پر فائز رہے، حسن عسکری رضوی 8جون 2013ء سے19 اگست 2018ء نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر سامنے آئے تھے، اب موجودہ صورتحال میں پنجاب اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد صوبے کے انتظامی امور کو نا صرف بہتر انداز میں چلانے بلکہ صاف و شفاف الیکشن کے انعقاد کیلئے 23جنوری کو محسن رضا نقوی کو نگران وزیر اعلیٰ پنجاب لگا دیا گیا، محسن نقوی پنجاب کے تیسرے صحافی نگران وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس سے پہلے نجم سیٹھی اور حسن عسکری بھی نگران وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب سید محسن نقوی کا نام نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر سامنے آیا تو یہ کسی کیلئے بھی حیران کن بات نہیں تھی کیونکہ بطور صحافی وہ ملک بھر کے تمام سیاسی و سماجی حلقوں میں یکساں مقبول اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سی این این میں دورانِ ملازمت انہوں نے تمام سیاستدانوں سے اچھے روابط بنائے جو تاحال موجود ہیں ، ان کا نام گو پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر آیا تھا لیکن اس میں کسی نہ کسی صورت تمام سیاسی جماعتوں کی رضا مندی شامل رہی ، اب ان کا نام بطور وزیر اعلیٰ پنجاب پکارا جا چکا ہے تو وہ ایک ایسی قابل قبول شخصیت کے طور ابھرے ہیں جو صوبے کے انتظامی امور کو بہتر انداز سے چلا رہے ہیں ، بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب انہوں نے نا صرف زیرو روٹ بلکہ سرکاری پروٹوکول بھی لینے سے مکمل طور پر انکار کر دیا تھا، نگران وزارت اعلیٰ کی مسند پر بیٹھنے والے محسن نقوی کو حکومتی سطح پر معاشی مینجمنٹ، نگرانی، جوابدہی اور شفافیت کے ساتھ ساتھ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سمیت دیگر سنگین نوعیت کے مسائل کا سامنا ہیں جن سے وہ انتہائی خوش اسلوبی سے نمٹ رہے ہیں۔ انتہائی ٹھنڈے مزاج کی کی حامل شخصیت ہونے کی وجہ سے محسن نقوی کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ موجود رہتی ہے، ان کے قریبی دوستوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ انہوں نے انھیں کم ہی غصہ میں دیکھا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اپنے خلاف ہونیوالے سیاسی رد عمل کی نتیجے میں بھی وہ غصہ میں نہیں آئے ہوں گے بلکہ انہوں نے بے وجہ کی سیاسی تنقید کو اپنے مخصوص انداز میں نظر انداز کر دیا ہوگا ، اور انہیں ایسا کرنا بھی چاہیے تھا کہ بڑی سوچ اور بڑا دل رکھنے والے ایسی بے وجہ کی تنقید پر کان نہیں دھرتے۔ بلاشبہ پنجاب میں کئی سالوں بعد ایک ایسا متحرک اور قابل وزیر اعلیٰ دیکھنے کو ملا جس کی تعریف کر نے کو جی چاہتا ہے۔ فعال اور ہر جگہ پہنچنے والے محسن نقوی کے نہ صرف اپنے بلکہ بیگانے بھی معترف ہیں۔ ان کچھ مہینوں میں اتنے بڑے بڑے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے جو ماضی میں سالوں مکمل نہ ہو سکے، صوبے میں عرصہ دراز سے التواء کا شکار مختلف تعمیراتی پراجیکٹس کی تکمیل کو یقینی بنایا بلکہ صوبائی دارالحکومت سمیت صوبے کے دور دراز علاقوں میں موجود ہسپتالوں کے دورے کرکے انکی ابتر صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے ، سرکاری اداروں کی کارکردگی بھی بہتری کی جانب گامزن ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ میٹرو بس اور اورنج لائن میٹرو ٹرین سٹیشنز کے ہنگامی دورے کئے جس میں اورنج لائن میٹرو ٹرین کے انار کلی سٹیشن کے واش رومز بند، پانی غائب، ٹوکن والی مشینیں خراب، مسافروں کی لمبی قطاریں دیکھ اظہار ناراضگی کرتے ہوئے ان مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے احکامات جاری کئے، صوبہ پنجاب میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے پاکستان پولیس سروس کے انتہائی پروفیشنل، ایماندار آفیسر عثمان انور کو انسپکٹر جنرل کے عہدے پر فائز کیا، جن کی پوسٹنگ کے بعد پنجاب پولیس کی کارکردگی میں نمایاں طور پر بہتری سامنے آئی ، مزید یہ کہ آئی جی پنجاب سے عوام سے براہ راست رابطے اور ان شکایات کے بروقت ازالے کیلئے 1787ہیلپ لائن مکمل طور پر فعال کروایا جس کے ثمرات سے پنجاب پولیس اور پنجاب کے عوام سالوں تک ضرور مستفید ہوں گے۔ اسی طرح عاجزی ، لہجے کی شگفتگی اور ملنساری میں اپنی منفرد حیثیت رکھنے والے محسن نقوی نے بیوروکریسی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے زاہد اختر زمان کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کیا اور اپنی ٹیم کیساتھ23جنوری سے تادم تحریر جو تاریخ رقم کی ہے وہ مدتوں یاد رہے گی، پولیس اور بیوروکریسی کو حقیقی معنوں عوام کا تابعدار بنانے کیلئے کئے جانیوالے اقدامات بھی انکے دور اقتدار کی یاد دلاتی رہے گے ، واضح رہے کہ ماضی میں بھی پنجاب میں مختلف ادوار میں5نگران وزرائے اعلیٰ آئے تھے لیکن وہ صرف اپنی مدت پوری کرنے آتے رہے، انہوں نے نہ تو کسی ترقیاتی کام کی بنیاد رکھی اور نہ ہی کسی جاری ترقیاتی کام کی فوری تکمیل میں دلچسپی لی، کسی ادارے کی اصلاح پر توجہ دی اور نہ ہی عوام کی داد رسی کیلئے ایوان وزیر اعلیٰ سے باہر نکلے تھے، تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ وہی ملک ترقی کرتا ہے جس کی عوام خوشحال ہو کیونکہ عوام کی خوشحالی کے بغیر ترقی کا تصور ایسے ہی ہے جیسے بلی کو چھیچھڑوں کے خواب، اور یہ سچ بھی ہے کہ ملک ترقی کرے گا تو ہی عوام خوشحال ہو گی، ترقی کا اصل راز یہی ہے کہ سب سے پہلے عوام کو خوشحال بنایا جائے تاکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی فکر سے آزاد ہو سکیں اور اپنی پریشانیوں و مشکلات سے نکل کر بہتر انداز میں ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں، شاید یہی وجہ تھی کہ محسن نقوی نے بھی سابق نگران وزرائے اعلی کی ڈگر پر چلنے کی بجائے ایوان وزیر اعلیٰ میں وقت گزاری  کی اس روایت کو توڑا اور بتایا کہ نگران حکومتوں کا کام محض الیکشن کروانا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقیاتی کاموں کے امور پر گہری نظر رکھنے کیساتھ ساتھ قبل از وقت تکمیل کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انکے کام کے انداز اور سپیڈ کو دیکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف بھی گزشتہ دنوں ایک تقریب میں محسن نقوی کی عوامی خدمت کی بھرپور انداز میں تعریف کئے بنا نہ رہ سکے۔ میاں شہباز شریف نے ان کی کارکردگی کو سراہا اور اپنے خطاب کے دوران ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بھی آپ نے سپیڈمیں پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور آپ نے ’ محسن نقوی سپیڈ‘ سے کام کیا۔ اب اگر یہاں یہ کہا جائے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے تو واقعی ’ وقت گزاری‘ کی ایسی حیران کن مثال قائم کی ہے کہ آئندہ آنیوالی حکومتیں بھی اگر متحرک قدموں کے ساتھ محسن نقوی کو فالو کریں تو انہیں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ بہر حال یہ سچ ہے کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کو متحرک دیکھ کر بہت اطمینان ہوتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button