Column

اب کس کے کڑاکے نکلیں گے؟

سیدہ عنبرین
پردہ غیب سے جب بھی کوئی شخصیت کوئی منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ دانشوروں کے ایک مخصوص طبقے کا دیدہ نابینا ان میں وہ خوبیاں تلاش کر لیتا ہے جو اس کے والدین کے علم میں بھی نہیں ہوتیں۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں جو وہ جانتے ہیں وہ کوئی نہیں جانتا، جتنے وہ انکے قریب ہیں کوئی نہیں ہوسکتا او ر جو کچھ انہوں نے دیکھا ہے وہ ایکس رے مشین نہیں دیکھ سکتی۔ وہ سب کچھ سٹی سکین مشین بھی سامنے نہیں لا سکتی۔ ان خوبیوں میں راسخ العقیدہ مسلمان ہونا، دیانت دار ہونا اور نمازی ہونا تو عام سی بات ہے، تلاش کرلیا جاتا ہے کہ انکے نام پر اس کرہ ارض میں کوئی مکان نہیں، کوئی کار نہیں، گویا وہ لامکان اور بے کار ہیں۔ معاملہ فہم ہونا صاحب مطالعہ ہونا انکی خاصیت جبکہ دور بین نگاہ رکھنا اضافی قابلیت بتائی جاتی ہے۔ یہ بھی بتایا بلکہ اشتہار دیا جاتا ہے کہ وہ عفو و درگزر پر یقین رکھتے ہیں، انتقام پر نہیں، اور صنف مخالف پر تو بالکل بھی توجہ نہیں دیتے البتہ صنف مخالف کو اتنی اجازت دے دیتے ہیں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان پر توجہ دے، مذکورہ بیماری ہمارے بیشتر وزرائے اعظم کو لاحق رہی ہے۔ دو سابق وزرائے اعظم جن میں سے ایک آجکل جیل میں ہیں جبکہ دوسرے کو حکومت سے رہائی ملی ہے، دونوں بہت نامور ہیں۔ دانشوروں کی تلاش کر دہ خوبیاں انسانوں میں ہی ہوتی ہیں، انسان میں یہ خوبیاں نہ ہوں تو وہ انسان کیوں کہلائے، وہ تو فرشتہ ٹھہرا۔ فرشتوں کا کام فقط عبادت ہے، وہ اقتدار میں نہیں آتے، کچھ فرشتے دوسروں کو اقتدار دلاتے ہیں اور جبکہ کچھ فرشتے گناہ و ثواب بشمول منی لانڈرنگ اور بیڈ روم مصروفیات کا حساب رکھتے ہیں۔ علم غیب رکھنے والا دانشور طبقہ قوم کو باور کرانے میں مصروف ہے کہ نگران وزیراعظم جناب انوار الحق کاکڑ ، سابق وزیراعظم شہباز شریف اور سابق اپوزیشن لیڈر جناب راجہ ریاض کی مرضی کے خلاف منتخب ہوئے ہیں۔ قوم کو چاہئے کہ اس سچ پر فوراً یقین کر لے اور یہ بھی مان لے کہ حکومت اور اپوزیشن نے سولہ ماہ میں جو کچھ بھی کیا ہے وہ بھی ان کی مرضی سے نہیں ہوا، بالکل سب کچھ بالجبر ہی ہوتا رہا اور یہ دونوں عظیم قومی راہنما خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔ ہمارے مقدر میں ایسے ہی مسکین و شریف لکھے ہیں، جانے والی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کا پیمانہ وہی رکھنا ہوگا جو ان سے پہلے جانے والی حکومت کیلئے بنایا گیا تھا۔ خان حکومت گئی تو ڈالر اور پیٹرول نے چھلانگیں لگائیں، بتایا گیا کہ وہ جاتے جاتے معیشت کو تباہ کر گئے ہیں۔ شاید یہ بات درست ہو۔ اب شریف حکومت کے جانے کے بعد ڈالر اور پیٹرول نے ایک بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ پس ماننا پڑے گا کہ شریف حکومت نے معیشت کو سنوارا نہیں بگاڑا ہی ہے، آنے والے ایام میں نگران حکومت کے کچھ اور فیصلے اس صورتحال کی تصدیق کر دیں گے۔
جانے والوں کے کچھ کارنامے، کچھ احسانات بھلائے نہ جاسکیں گے، ان میں قابل ذکر کچھ یوں ہیں: ڈالر 150روپے سے 300روپے کا ہوگیا۔ پیٹرول 150روپے سے تقریباً 300روپے تک ہونے کو ہے، شرح ترقی 6فیصد سے گر کر نصف رہ گئی ہے، ملک کے اہم ایئرپورٹ اور شاہراہیں گروی رکھ دی گئیں۔ ایک نہیں درجن بھر خاندانوں کے مقدمات ختم ہو گئے۔ اس طرح ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا۔ دعویٰ ہے کہ ایک مرتبہ اور یعنی پانچویں مرتبہ اقتدار ملا تو قوم کی حالت بدل دیں گے۔ پانچویں مرتبہ اقتدا ر ملنے کے بعد کیا ہوگا اس کی ایک جھلک چوتھی مرتبہ ملے اقتدار کے آئینے میں دیکھی جاسکتی ہے۔
نگران حکومت کے سربراہ جناب انوار الحق کاکڑ سے توقعات وابستہ کرنا درست نہ ہوگا کہ ان کا مینڈیٹ عام انتخابات کرانا ہے۔ انکی حکومت ہر معاملے کی نگرانی کریگی، اگر نظریہ ضرورت کے تحت مینڈیٹ میں کچھ اضافہ ہوگا، جس کا بہت امکان ہے، تو اس صورت اصل امتحان ہوگا، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحیتوں کا امتحان بھی کہ وہ قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے قدرت کی طرف سے عطا کردہ موقع کا بہتر استعمال کرتے ہیں یا اسے ضائع کرتے ہیں۔
کاکڑ قبیلے کے لوگ سادہ مزاج، متحمل، دیانتدار اور راست گو ہونے کی شہریت رکھتے ہیں، وہ معاملات کو زیادہ طول دینے اور الجھانے کے قائل نہیں ہوتے بلکہ معاملات کو پہلی فرصت میں سمیٹ دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کیا سوچ رہے ہیں؟ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اس کا اندازہ انکی ٹیم یعنی انکی کابینہ دیکھ کر اور ان کا پالیسی خطاب سن کر ہی ہوگا۔
جناب انوار الحق کاکڑ سے پہلے ایک اہم ترین عہدے پر ہم ایک اور کاکڑ صاحب کو دیکھ چکے ہیں، یہ پاکستان آرمی کے چیف جناب عبدالوحید کاکڑ تھے۔ انکے زمانے میں جناب نوازشریف اور غلام اسحاق خان کے درمیان اختلافات عروج پر پہنچے تو انہوں نے معاملہ مزید سنگین ہونے اور بحران بڑھنے سے قبل ہی دونوں کے کڑاکے نکال دیئے، دونوں کو گھر بھیج دیا۔ اب کس کے کڑاکے نکلیں گے، جلد واضح ہو جائیگا۔

جواب دیں

Back to top button