Column

آزادی کے ادھورے خواب

یاور عباس
برصغیر پر لگ بھگ ایک ہزار تک مسلمان حکمران رہے پھر انگریزوں نے 1857ء میں برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کرلیا ۔ ہندو مسلمان حکمرانوں کی غلامی سے نکل کر انگریزوں کی غلامی میں چلے گئے اس لیے انہیں کوئی خاص فرق نہ پڑا بلکہ انہیں فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان ہر شعبہ میں پس پشت ڈال دئیے گئے اور ہندو انگریزوں کے قریب ہوکر ملک کے ہر بڑے عہدوں تک پہنچ گئے ۔ مسلمانوں نے اپنی ساری طاقت جمع کر کے 1857ء میں آزادی کی کوشش کی جسے ریاستی طاقت کے ذریعے ناکام بنا دیا گیا یوں مسلمانوں کا انگریز حکومت پر اور انگریز حکومت کا مسلمانوں پر غصہ بڑھتا گیا جس میں نقصان صرف مسلمانوں کا ہی ہوا جو زندگی کے ہر شعبہ میں پیچھے رہ گئے مسلمانوں کے دل میں آزادی کی تڑپ چنگاریوں کی طرح برقرار رہی اور آزادی کی تحریکیں زیر زمین چلتی رہیں۔ انگریز حکومت کی نصف صدی کے بعد ہندوستان میں ہندو اور مسلم رہنمائوں نے مل کر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک شروع کی اگرچہ بعد ازاں قائداعظم نے اپنی تحریک کو ہندووں سے الگ کر لیا مگر دونوں قومیں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے میدان عمل میں نکلیں اور 50سال کے لگ بھگ جدوجہد کے بعد انہوںنے انگریزوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا ۔ برصغیر پاک و ہند کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا ، یہ تقسیم دو قومی نظریہ کی بنیاد پر کی گئی ۔ جس میں مسلم رہنمائوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں موقف اختیار کیا کہ یہ دو الگ الگ قومیں ہیں ان کا رہن سہن ، مذہب ، اقدار سب جدا جدا ہیں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں میں صرف اختلافات ہی نہیں بلکہ تصادمات تھے اور جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے وہ بھارتی انتہا پسندوں کے ہاتھوں بے حسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا خواب تحریک پاکستان کے رہنمائوں کے علاوہ برصغیر میں ہر حریت پسند مسلمان دیکھ رہا تھا مگر اس کا تصور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال ؒ نے پیش کیا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ قیام پاکستان کا مقصد یہاں اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کا قیام عمل میں لانا تھا ، قائداعظم محمد علی جناحؒ اسی اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے اور مسلمانوں کے عہد رفتہ کی یاد تازہ کرنا چاہتے تھے ، پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے جو امت مسلمہ کی قیادت کرے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں ، ظلم و زیادتی کا شکار لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرے ۔ ریاست پاکستان میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ اقلیتوں کو بھی مکمل مذہبی آزادی فراہم کی گئی ۔
تصور پاکستان پیش کرنے والی عظیم شخصیت علامہ محمد اقبالؒ تو آزادی سے ایک دہائی قبل ہی جہان فانی سے کوچ فرما گئے ، قائداعظم محمد علی جناحؒ کو خواب سچا تو ثابت ہوگیا انہوںنے آزادی کا ایک سال دیکھ لیا مگر ان کے خواب پورے نہ ہوئے اور وہ جلد ہی داغ مفارقت دے گئے۔ تحریک پاکستان کے تمام رہنمائوں نے پاکستان کی ترقی ، خوشحالی ، اخوت، مساوات، رواداری کے جو خواب سجائے تھ وہ آنکھوں میں لیے جلد ہی دنیا سے چلے گئے یا پھر انہیں منظر عام سے ہٹا دیا گیا اور ملک میں جمہوری سسٹم کا بوریا بستر گول کرکے آمریت کے سائے تلے ملک چل پڑا۔ پھر کبھی جمہوریت، کبھی آمریت کا نظام چلتا رہا ۔76سال تک ہم نے تجربات میں اپنے ملک کو کیا سے کیا بنا دیا، آج تباہی کی ذمہ داری کوئی بھی اپنے سر لینے کو تیار نہیں ہے۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ملک وجود میں آیا لیکن قیام پاکستان سے لے کر اب تک دو فکری نظریہ چل رہا ہے ، یہاں طبقات کی تقسیم ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، اخوت ، مساوات ، رواداری، برداشت کا فقدان ہونے کی وجہ سے معاشرہ کسی ایک نظریہ اور فکر پر نہیں رہا ۔ ماضی میں اسی تفریق کی بنا پر پاکستان دولخت ہوچکا ہے۔ آج مقتدر قوتیں اور عوام ایک پیج پر ہیں، یہ سوال حل طلب ہے ۔ قیام پاکستان کے وقت جو خواب عوام نے دیکھے تھے اور خصوصاً مہاجرین جنہوں نے اپنی نہ صرف اپنی جانوں بلکہ مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں دائو پر لگا کر پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوان لڑکیوں اور خواتین نے اپنی عزتیں بچانے کے لیے دریائوں، ندی، نالوں اور کنوئوں میں چھلانگیں لگا کر جام شہادت نوش کیا۔ اسی عوام نے آزادی حاصل کرنے کی بعد جو خواب سجائے تھے وہ ابھی بھی ادھورے ہیں ۔
ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو انا، ہٹ ، دھرمی اور ضد کو چھوڑ کر ازسر نو پالیسی مرتب کرنی چاہیے جس میں پاکستان کے تمام مسائل کے حل کے لیے ایک متفقہ ایجنڈا تیار کیا جائے ۔ بلاتفریق تمام سیاسی پارٹیوں میں بیٹھے چور ، ڈاکو، قومی خزانہ لوٹنے والے کرپٹ عناصر کو نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ ان کو چوک چوراہوں میں سرعام پھانسیاں دیا جائیں۔ ہر ادارہ اپنی اپنی آئینی ذمہ داری ہی اپنا قومی فریضہ سمجھے اور کام ایمانداری سے کرنے کا عزم کر لے، سیاستدان بھی خود احتسابی کا عمل اپنائیں، اپنی سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوری روایات کو فروغ دیں، کرپٹ لوگوں کو جگہ نہ دیں اور نہ ہی کسی کو کرپشن کرنے کی اجازت دیں۔ اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنائیں، لفافہ صحافیوں ، اینکروں، ان پڑھ اور نالائق لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ ڈھونڈا جائے، لوگوں کو آزادی کا احساس دلائیں مگر ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کریں، لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرنے کے لیے ایسے اقدامات کریں کہ قانون سازیوں کے ذریعے عوام کی آزادی کو غلامی میں نہ تبدیل کرنا پڑے، لوگوں کو محنتی بنائیں، وسائل اتنے پیدا کریں کہ لوگوں کو روزگار کے حصول کے لیے کشتیوں میں اپنی جانیں ضائع نہ کرنی پڑیں، یقین جانیں حالات تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی، یہی ملک دنوں میں اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی آزادی کا بنیادی مقصد معاشرہ میں امن، بھائی چارہ، خوشحالی اور خودی کے ذریعے اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل کرنا ہے جب تک یہ مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوجاتے ہماری آزادی کے خواب ادھورے رہیں گے۔

جواب دیں

Back to top button