
سی ایم رضوان
شہباز پارلیمنٹ کے زیر غور ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ کی جانب سے گزشتہ روز گیارہ اگست کو کالعدم کئے جانے کے فیصلے سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی کی راہ میں خطرات اور شکوک و شبہات نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے۔ ہوائوں کا رخ یکسر بدل جانے کے بعد آسانیاں ہی آسانیاں بتانے والے حلقے تو کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے وطن واپس آنے میں اب کوئی مشکل نہیں لیکن کچھ لوگ شاید اپنے بے خبر اور خوش فہم ہم خیالوں کو پر جوش رکھنے کی ناکام کوششوں کے تحت اس فیصلے کو نواز شریف کی واپسی کی راہ میں بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ نواز شریف کو 2017میں پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا۔ اس وقت پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں کیپیٹل ایف زیڈ ای جبل علی نامی کمپنی کے بارے میں 2013میں اپنے کاغذات نامزدگی میں ذکر نہ کرنے کے باعث میاں محمد نواز شریف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت صادق نہیں رہے۔ پس وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دیئے جاتے ہیں جبکہ دسمبر 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے بھی العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم وہ عدالتی اجازت کے بعد علاج کی غرض سے نومبر 2019میں بیرونِ ملک روانہ ہوئے تھے اور اس کے بعد سے وہ اب تک واپس پاکستان نہیں آئے۔ان کی غیر موجودگی میں انہیں عدالت کی جانب سے اشتہاری بھی قرار دیا جا چکا ہے۔
تاہم سابق وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے کی شب نجی ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نواز شریف ستمبر 2023میں نہ صرف پاکستان واپس آ جائیں گے بلکہ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کی قیادت بھی کریں گے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ خود لندن جا کر نواز شریف کے واپسی پروگرام کو مشاورت کے بعد حتمی شکل دیں گے۔
سوال یہ ہے کہ جب یہ ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹس ایکٹ پیش کیا گیا تھا تو کہا گیا کہ اس ایکٹ کے پاس ہونے سے نواز شریف کو ریلیف مل سکتا ہے تو وہ کیا ریلیف تھا جو نواز شریف کو مل سکتا تھا۔ رواں برس مئی میں پاکستانی پارلیمان سے منظور ہونے والے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023کے تحت سب سے اہم تبدیلی یہ تھی کہ ازخود نوٹس کے مقدمات میں فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا اور اس نظرثانی کا دائرہ کار اپیل جیسا ہی ہونا تھا۔ اس قانون کے تحت دوسری اہم تبدیلی یہ کی جانا تھی کہ ایسے فیصلوں پر نظرثانی کی اپیل کی سماعت اس بینچ سے بڑا بینچ کرے گا جس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی ہو۔ بل میں کہا گیا تھا کہ نئے قانون کے تحت کسی بھی فیصلے کے بعد 60دن کے اندر نظرثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی تھی۔ اس قانون کے تحت اپیل کنندہ کو اپنا وکیل بھی تبدیل کرنے کا حق دیا جانا تھا۔ اس میں ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ نئے قانون کے تحت ان افراد کو بھی اپیل کا حق حاصل ہو گا جن کے خلاف اس قانون کے نافذ العمل ہونے سے پہلے فیصلہ سنایا گیا ہو تاہم ایسے افراد کو قانون نافذ ہونے کے 60دن کے اندر اپیل دائر کرنا تھی۔ شہباز حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بل کا مقصد سپریم کورٹ کو فیصلوں اور احکامات پر نظرثانی کے اختیارات کے استعمال میں سہولت دینا ہے تاہم تحریکِ انصاف نے اس قانون کو نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔ خیال رہے کہ نواز شریف کو جس مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی وہ بھی آئین کے آرٹیکل 184؍3کے تحت لئے گئے ازخود نوٹس کے نتیجے میں ہی شروع ہوا تھا، اس لئے قانون برقرار رہنے کی صورت میں انہیں بھی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ملا تھا تاہم ان کی جانب سے اپیل دائر ہونے سے قبل ہی یہ قانون سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔ جس کو کالعدم کئے جاتے کا مذکورہ عدالتی فیصلہ آیا ہے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے اس فیصلے میں کہا ہے کہ یہ قانون پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز کے مترادف ہے اور ریویو اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو۔ 78صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ یہ اصول طے شدہ ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا اور سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے اور کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کے اختیار کو انتہائی احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک قانون کو اس وقت کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے جب اس کی شقیں آئین سے ہم آہنگی رکھتی ہوں لیکن ریویو آف ججمنٹس ایکٹ آئین پاکستان سے واضح طور پر متصادم ہے اور اسے کسی صورت آئین سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے کہا ہے کہ اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا۔
البتہ اب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کی نااہلی کی مدت پر دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی سے متعلق معاملات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ پارلیمنٹ کی جانب سے متفقہ طور پر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نواز شریف کی نااہلی پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔ اس فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے اور اگر عدالتیں بار بار پارلیمان کے اختیار میں مداخلت کریں گی تو یہ اچھی روایت نہیں ہوگی۔ اس سے ادارے کمزور ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کی ٹائمنگ سے تاثر ملتا ہے کہ پارلیمان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا تاکہ پارلیمان اسے دوبارہ نہ لاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نواز شریف کی نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر ہوئی۔ سیاست میں حصہ لینا بنیادی حقوق کا معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن کی دفعہ 232کے تحت نواز شریف سمیت درجنوں افراد جنہیں تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا۔ پانچ سال کا عرصہ گزارنے کے بعد اہل ہوچکے ہیں جبکہ اس موقف کے برعکس بعض قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی جس عدالت، یعنی سپریم کورٹ، سے ہوئی اسی ادارے نے اپنے ایک فیصلے میں اس کی مدت کا تعین بھی کیا ہے ( یعنی اسے تاحیات قرار دیا ہے) اور جب تک سپریم کورٹ اپنے اس فیصلے پر نظر ِثانی نہیں کرتی صرف الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے نواز شریف کی نااہلی کی مدت کا دوبارہ تعین نہیں کیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی کے حامی ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کو اپنی نااہلی کے خلاف ملنے والا اپیل کا حق اب ختم ہوگیا ہے تاہم اگر کسی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو عدالت میں چیلنج کر دیا اور اسے بھی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا تو پھر نواز شریف اور جہانگیر ترین کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ معاملہ عدالت کے موڈ اور منشا کے تحت کسی بھی صورت میں ڈھل سکتا ہے جبکہ نسبتاً غیر جانبدار ماہرین قانون کی رائے اس سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون نواز شریف کو زیادہ تحفظ نہیں دیتا تھا اور اب نواز شریف اس پر نظر ثانی کی درخواست دائر نہیں کر سکتے کیونکہ جب تک پارلیمان آئینی ترمیم نہ کر لے تب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ بحال رہے گا۔ جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ پارلیمان کے ذریعے سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کا مقصد نواز شریف اور دیگر کی نااہلی کے خلاف اپیل کی گنجائش پیدا کرنا تھا لیکن اب حالیہ فیصلے سے یہ گنجائش ختم ہوگئی ہے اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے نااہلی کی مدت پانچ سال تک اس لئے محدود نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کے لئے پارلیمان کی دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم درکار ہے۔ ان تمام آئینی و قانونی موشگافیوں کو اگر غیر جانبدار ہو کر دیکھا جائے تو اس میں آئین و قانون سے زیادہ اخلاقی، عدالتی اور جمہوری روایات و اخلاقیات کا پاس کیا جانا زیادہ ضروری ہے لیکن وہ اس ملک میں نہ کبھی کیا گیا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی امید ہے لہٰذا بڑے میاں کی باعزت اور بے خطر واپسی ہواں کے رخ اور عدلیہ کی نوازش پر ہی منحصر ہے کیونکہ اگر ہماری معزز عدالتیں چاہیں تو پارٹی قیادت کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے کا ارادہ رکھنے والے اراکین کو محض ان کے ارادہ کی بناء پر ہی نااہل کر دیتی ہیں اور اگر سمجھ میں آ جائے تو ایسے ارادوں پر عمل کر لینے والوں کے ارادوں اور رائے کو بھی احترام دینے کا حکم صادر فرما دیتی ہیں۔
ایک سوال اس ضمن میں یہ بھی ہے کہ الیکشن ایکٹ کی ترمیم کیا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے 25جون کو الیکشن ایکٹ 2017میں ترمیم کا بل اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ جس کے تحت کسی بھی رکن قومی اسمبلی کی نااہلی کی مدت زیادہ سے زیادہ پانچ سال مقرر کر دی گئی تھی جبکہ ترمیم سے پہلے الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 62اور 63کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین نہیں تھا۔ اگرچہ ترمیم سے قبل الیکشن ایکٹ میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا تھا لیکن اپریل 2018میں اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات رہے گی۔ خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف پاناما کیس میں اور حال ہی میں تشکیل پانے والی استحکامِ پاکستان پارٹی کے بانی جہانگیر ترین اثاثہ جات ظاہر نہ کرنے کے کیس میں 2017میں سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیئے گئے تھے۔





