اندھیر نگری

محمد عباس عزیز
پچھلے پچھتر سالوں سے پاکستانی عوام اندھیر نگری میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور عوام اپنے کندھوں پر نجانے کتنے بوجھ اٹھا کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے اس نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے اور عوام کے حواس جواب دے گئے ہیں۔ پہلے دوسرے مسائل کون سے کم تھے کہ لااینڈ آرڈر قانون کی حکمرانی‘ روزمرہ کے مسائل ہسپتالوں اور سرکاری دفاتر میں عوام کو پروٹوکول تو کیا ذلیل و رسوا ہی ہونا پڑتا تھا، اوپر سے مہنگائی بم گرا دیا گیا۔ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے اس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں حکمرانوں اور دوسری اشرافیہ میں احساس نام کی کوئی چیز ہی نہیں پائی جاتی۔ ایک طرف غربت کی وجہ سے لوگ خود کشی کر رہے ہیں، بھوک سے مر رہے ہیں دوائی لینے کیلئے ہسپتال جانے کیلئے ایک دوسرے سے قرضہ مانگ رہے ہیں اور دوسری طرف وزرا، سینیٹ کے ممبران، بیوروکریسی اور دیگر مالیاتی اداروں کے سربراہ اپنی عیاشیوں میں مست ہیں۔ کوئی حال مست اور کوئی مال مست کی گردان کر رہاہے۔16جون2023 کو سینیٹ میں جو بل منظور ہوا اس میں چیئرمین سینیٹ کیلئے غیر معمولی مراعات‘ سپیکر ڈپٹی سپیکر لیڈر آف دی اپوزیشن کی تنخواہوں اور الائونسز اور مراعات میں ہوش ربا اضافہ کیا گیا ہے اس پر پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔یہ کام اس وقت کیا گیا جب آئی ایم ایف ہم سے روٹھ گیا تھا اور ملک پاکستان پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ یہ حال پاکستانی بیوروکریسی کاہے تمام مراعات ان کو حاصل ہیں‘ سرکاری گھر ہیں بجلی کے بل اور دیگر سہولیات کے ساتھ وہ آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بجلی گیس اور پٹرول کی سہولت کو سرکاری طورپر ختم کر دیا جائے تو پاکستان کے لوگ بجلی اور پٹرول کے عذاب سے بچ جائیں گے۔ وزیر مشیر اور سرکاری بیوروکریسی کے اخراجات ختم کر دئیے جائیں تو پاکستانی عوام کو کچھ ریلیف ضرور مل جائے گا۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ پاکستان یک ایسا ملک بن چکاہے جس میں ہر کمیونٹی نے اپنا ٹرائیکا بنا لیا ہے، وہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں، اگر آپ کو یقین نہ آئے تو شبر زیدی جو عمران خان دور کے وزیر خزانہ کے مشیر رہے ہیں اور انکم ٹیکس کے معاملات کو ڈیل کرتے تھے انہوں نے اپنے حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ کوئی طبقہ ٹیکس ادا نہیں کرتا، جس کو بھی نوٹس ارسال کئے وہ جتھہ بنا کر میرے دفتر آ گیا اور حکومت کو پریشر میں لا کر اپنا انکم ٹیکس معاف کروا لیا۔ جب تک کوئی بھی حکومت اس ٹرائیکا کو ختم نہیں کرے گی اس وقت تک پاکستان میں خوشحالی نہیں آسکتی۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی رپورٹ یہ بتائی ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ کارپوریٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ مراعات حاصل کرتی ہے جو کئی ارب ڈالر میں ہے۔ عمران خان دور میں تین ارب ڈالر کارپوریٹ سیکٹر کو دئیے گئے کہ وہ کرونا کی وجہ سے اپنے بزنس کو بہتر بنائیں آج سٹیٹ بینک ان کے نام بھی نہیں بتا رہا اور ہم ایک ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کے آگے لیٹے ہوئے ہیں۔ سیاستدانوں اور دوسری اشرافیہ کو خدا کا خوف ہونا چاہئے۔ ایک دن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے، کیا جواب دیں گے۔ ہمارے علماء کرام بھی لوگوں کو دین کی اصل تعبیر نہیں بتاتے وہ اکثر گروہی مسلکی مسائل میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اقبالؒ نے علماء کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:
ہے ترے زمانہ کا امام وہی برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے آگاہ کرے
یو ٹیوب پر اکثر علماء کو سننے کا موقع ملتا ہے تو اکثریت ماضی میں پھنسی ہوئی ہے حالانکہ قرآن واضح بتاتا ہے کہ تم سے پہلی امتوں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ لیکن آپ غور کرکے دیکھ لیں یہ شعبہ بھی اندھیر نگری میں ڈوبا ہوا ہے علماء کرام کی جو ذمہ داری بنتی ہے وہ پوری نہیں کر رہے بس یہی عرض کر سکتے ہیں۔
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ہر شعبہ زندگی میں ہماری اشرافیہ اور حکومتی وزراء کی بے نیازیاں صاف نظر آرہی ہیں۔ باجوڑ خونریزی کا واقعہ دیکھ لیں، 1979 کی دہائی میں نام نہاد جہاد کے نام پر ڈالروں کی بوریاں لے کر آج یہ جہاد ہمارے اپنے گلے پڑا ہوا ہے۔ اتنے لوگ تو پاک بھارت کی جنگوں میں شہید نہیں ہوئے، جتنے افغانستان کے بارڈر سے آنیوالے دہشت گردوں نے ہمارے پاکستانی شہید کر دئیے ہیں۔ اس میں بھی ہمارے فیصلہ ساز اداروں کی بے نیازیاں عیاں ہیں۔ سابقہ دور حکومت میں عمران خان نے یہ سمجھا تھا کہ شاید پاکستان نے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہے۔ چار سو ایسے دہشت گرد افغانستان سے پاکستان لے کر آئے، جو پاکستان کی حکومت کو مطلوب تھے اور انہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کیا تھا۔ ان کی سزا کو معاف کروادیا گیا۔ گڈ طالبا ن اور بیڈ طالبان کی اصلاح ایجاد کرکے پاکستان میں دہشتگردی کا رواج عام کیا۔ عمران خان شاید یہ سمجھا تھا کہ یہ طالبان پاکستان آ کر گندم اگائی کیلئے ہمارے کھیتوں میں کام کریں گے۔ وہ تو وہی کام کریں گے جو وہ کرتے رہے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ چین کا نائب وزیراعظم پاکستان کا دورہ کر رہا ہے اور ادھر باجوڑ میں بم دھماکہ ہو جاتاہے، جس میں پچاس قیمتی جانوں کا ضیاع ہوگیا۔ اتنے بم دھماکے تو اشرف غنی اور دوسرے افغان وزیراعظم کے دور میں نہیں ہوئے لہذا اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان کی حکومت کے ساتھ بات چیت کرکے ان دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کالم میں مایوسی کا پہلو کچھ زیادہ نمایاں ہوگیا ہو لیکن میرے معزز قارئین کیا کریں جب ہم اپنے ارد گرد اور پاکستان کی سول ایڈمنسٹریشن کا جائزہ لیتے ہیں تو روشنی کی کرن کہیں سے بھی نظر نہیں آتی۔ اللہ رب العزت کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن قرآن کا فیصلہ یہ بھی ہے کہ جو قوم اپنے حالات درست کرنے کی کوشش نہیں کرتی خدا بھی اس پر اپنی رحمت نہیں کرتا۔ عدلیہ کے بارے میں یہ عرض ہے کہ وہ بھی اپنا ایک مقام پیدا کریں اور حق انصاف کے ساتھ عدالتوں میں فیصلہ کریں۔ ہر انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور خدا کے ہاں جوابدہ ہوگا۔ شوکت صدیقی سابقہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج رہے ہیں ان کے ٹی وی اور یو ٹیوب پر اینکر پرسن کو انٹرویو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سابقہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر معزز جج صاحبان تمام سابق چیف آئی ایس آئی جنرل ( ر) فیض حمید کے انڈر تھے۔ لہذا موجودہ عدلیہ سے التماس ہے کہ وہ اپنا دھبہ مٹانے کی کوشش کریں۔
آخر میں ہم وزیراعلیٰ پنجاب جناب محترم محسن نقوی اور گوجرانوالہ انتظامیہ یعنی کمشنر گوجرانوالہ اور ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ موڑ ایمن آباد کے انڈر پاس اور موڑ پر ریلوے پھاٹک اور موٹر وے کے نزدیک دیگر قصبات کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔ تمام مسائل ہم نے اپنے سابقہ کالم میں وزیراعلیٰ کے نام سے لکھے کالم میں عرض کئے تھے۔ آج ہم وزیراعلی سے دوبارہ اپیل کرتے ہیں کہ جب وہ گزشتہ ہفتے موڑ ایمن آباد بینظیر روڈ موٹر وے کا جائزہ لینے کیلئے تشریف لائے تھے تو کچھ لوگوں نے ان سے گزارش کی تھی کہ جن کسانوں کی زمین موٹر وے کیلئے ڈی سی گوجرانوالہ نے حاصل کی ہیں، ان کو مناسب قیمت کے ساتھ کسانوں کو معاوضہ دیا جائے، غریب کسانوں کی ساری عمر کی محنت سے بنائی زمین حکومت اونے پونے حاصل نہ کرے۔ وزیراعلیٰ سے تمام اہل علاقہ کسان بھائی عرض کرتے ہیں کہ موٹر وے کیلئے حاصل کی ہوئی زمین کی قیمت ہائوسنگ کالونی کے مطابق ادا کی جائے تاکہ غریب کسانوں کی مالی مشکلات کم ہوں۔ دوسری گزارش ڈی سی گوجرانوالہ سے ہے کہ موڑ ایمن آباد پھاٹک سے لے کر ایمن آباد چونگی تک سڑک سے تجاوزات کو ہٹادیا جائے تاکہ سڑک کشادہ ہوگی تو راہگیر حادثات سے محفوظ رہیں گے۔ تیسری گزارش ڈی سی صاحب سے یہ ہے کہ جن زمینداروں کی زمین پر زرعی ٹیوب ویل لگے ہوئے تھے وہاں سے ٹرانسفارمر اور کھمبے دوسری جگہ منتقل کرنے ہیں واپڈا حکام ان سے معاوضہ لے رہے ہیں، یہ تمام ذمہ داری تو آپ کی ہے، آپ واپڈا حکام کو حکم دیں کہ بغیر معاوضہ کے یہ ٹرانسفارمر شفٹ کریں، یہ تمام کام خود بخود انتظامیہ اگر کر دے تو رونا کس چیز کا۔





