CM RizwanColumn

اٹک شریف، ڈائری اور ڈکٹیشن

تحریر : سی ایم رضوان
سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی مبینہ ڈائری بھی سامنے آ گئی۔ مبینہ طور پر ان کے اپنے ہاتھوں سے لکھی یہ ڈائری ثابت کرتی ہے کہ عمران خان ان کے مکمل تسلط میں ہیں۔ بشریٰ بی بی نے دعائیہ الفاظ کے ذریعے عمران خان کی ذہن سازی کی اور اس مقصد کے لئے ان سے باغیانہ الفاظ استعمال کروائے گئے۔ ڈائری سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بشریٰ بی بی چیئرمین پی ٹی آئی کو ہدایت دیتی رہیں کہ کن الفاظ میں اور کیا دعا کرنی ہے۔ عدلیہ پر اتنا دبائو ڈالا جائے کہ منفی فیصلہ نہ آئے۔ تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ڈائری کے ذریعے چیئرمین پی ٹی آئی کو سیاسی ڈکٹیشن دی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ کس کو کیسے چلانا ہے۔ حکومت، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ کو کیسے دبائو میں لانا ہے۔ عدلیہ، فوج اور حکومت پر کون اور کب دبا ڈالے گا۔ ڈائری کے اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی سے متعلق اپنے فیصلے مسلط کرتی رہیں اور چیئرمین پی ٹی آئی اپنے تمام فیصلے و اقدامات بشریٰ بی بی کے حکم پر کرتے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مبینہ ڈائری میں جنرل باجوہ کو ’’ ماموں‘‘ کے کوڈ سے لکھا گیا ہے اور ڈائری میں لکھا گیا ہے کہ اگر گورنر راج لگتا ہے تو شہر بند کرنے کی تیاری کی جائے، کل سے اتنا پریشر بنائیں کہ کوئی نیگیٹو فیصلہ نہ دے پائے جبکہ ڈائری کے کچھ صفحات نجانے کس کی جانب سے پھاڑ دیئے گئے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو مسلط شدہ فیصلے پارٹی قیادت سے چھپانے کی ہدایت بھی ہوتی رہی۔ یہ لکھا گیا کہ پہلے اعلان نہیں کرنا۔ پارٹی کو بھی نہیں بتانا کہ آپ کتنے دنوں کے لئے آرہے ہیں۔ ڈائری کے ذریعے وکلا اور چیئرمین پی ٹی آئی کی گفتگو بھی کنٹرول کی جاتی رہی۔ ہدایت دی جاتی کہ وکلا نے اہم سوالات کرنے ہیں، چیءرمین پی ٹی آئی نے خاموش رہنا ہے۔ ڈائری کے مطابق بشریٰ بی بی وکلاء کو ہدایت دیتیں کہ آپ نے کہنا ہے ہماری درخواست کیوں نہیں سنی جاتی۔ بندیال آ گیا، نواز نے کہا تھا اب دیکھتے ہیں یہ حکومت کیسے رہے گی، خواجہ حارث سوال اٹھائیں کہ اعظم سواتی کیس میں مقامی سہولت کار کون تھے۔ مختصر یہ کہ ڈائری کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی سوچ اور شخصیت مرشد کی مکمل قید میں رہیں اور یوں شاید سابق وزیراعظم نے مکمل گرفت میں آنے پر اہلیہ کو ’’مرشد‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ اب یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عمران خان کی شخصیت پر بشریٰ بی بی کے روحانی خیالات کی چھاپ رہی، ان کے کھانے پینے پر بھی بشریٰ بی بی کا مکمل کنٹرول رہا۔ ڈائری میں درج ہے کہ سابق وزیراعظم نے کس وقت کیا کھانا ہے اور کیسے کھانا ہے۔ صبح قہوہ، شہد اور جوس، دوپہر کو کباب، گوشت، مچھلی وٹامنز کے ساتھ۔ دودھ کے بارے میں بھی عجیب منطق سامنے آئی۔ درج ہے کہ دودھ صرف رات بارہ بجے پینا ہے۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے نااہلی کے لئے زیر غور چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت اٹک جیل میں قید ہیں جبکہ ان کی جماعت کے رہنما اور وکلاء جو کہ اب صرف وکلاء ہی رہ گئے ہیں۔ قید کے پہلے روز سے ہی تسلسل کے ساتھ ان کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کا مطالبہ اور قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں۔ اٹک جیل میں عمران خان کی اسیری سے لے کر تادم تحریر پاکستان کے سیاسی مباحثوں میں اٹک جیل کا ذکر بڑی شدومد سے ہو رہا ہے۔ اس جیل میں ماضی میں کئی سیاسی رہنمائوں کی اسیری کا ذکر بھی ہو رہا ہے۔ نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا کہنا ہے کہ وہ تو اس جیل میں مشرف دور میں آٹھ ماہ تک اسیر رہ چکے ہیں۔ انہیں رہائی تک یہ معلوم نہ ہوسکا تھا کہ وہ کس جرم میں اسیر رہ چکے تھے۔ ان کی نہ تو کسی عدالت میں شنوائی ہوتی تھی اور نہ ہی ان آٹھ ماہ تک اے یا بی کلاس کا کہیں تذکرہ ہوا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس جیل میں اپریل سے دسمبر تک قید رہے یہاں گرمیوں میں لو کے تھپیڑے اور سردیوں میں یخ ہوائیں قیدی کو کسی پل چین نہیں لینے دیتیں جبکہ تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بھی رواں برس فروری میں اسی اٹک جیل میں قید کاٹ چکے ہیں۔ ان کے بقول بھی وہاں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہاں بی کلاس تک میسر نہیں۔ شنید ہے کہ عمران خان کو اس جیل کے نو بائی گیارہ کے سیل میں رکھا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر انہیں توشہ خانہ کیس میں ریلیف مل بھی گیا تو ہو سکتا ہے کہ انہیں کسی اور کیس میں بند کر دیا جائے۔
یاد رہے کہ 1999ء میں اس وقت معزول کیے گئے وزیراعظم نواز شریف کو اٹک قلعے میں قید رکھا گیا تھا۔ ماضی میں ایسا ہوتا تھا کہ کسی سیاست دان کو تنگ کرنا ہوتا تو اسے بلوچستان کی مچھ جیل میں بھیج دیا جاتا تھا تاکہ کوئی اس سے مل نہ سکے لیکن اٹک جیل تو اسلام آباد سے کافی قریب ہے۔ بہرحال کوئی سابق وزیراعظم ہو یا کسی بھی اہم عہدے پر فائز رہنے والا قیدی ہو جیل میں اس کے رتبے کے مطابق سہولیات نہیں بلکہ جرم کے مطابق سزائیں ملنی چاہئیں اور جیل مینوئل میں ان سزاں کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ ایک عام مجرم کو اگر جیلر کے سامنے کھڑا کر کے تھپڑ لگائے جا سکتے ہیں تو اسی جرم میں جانے والے کسی سابق وزیر اعظم کو کیوں نہیں۔ ایسا امتیازی سلوک کرنا یقیناً عام آدمی کی توہین ہے۔ لیکن ہمارے یہاں سیاسی پروٹوکول کا ماحول ہے۔ افسران اور سرکاری مشینری یہ سوچ کر ایسے لوگوں کو
خاص پروٹوکول دیتے ہیں کہ ہوسکتا کل کلاں اس کی حکومت بن جائے تو پھر شرمندگی یا انتقام کا نشانہ بننا پڑ جائے گا جبکہ پی ٹی آئی والے اور عمران خان تو اس امر کا خاصا پرچار کرتے رہتے ہیں کہ وہ حکومت میں آ کر گن گن کر اور ہر ایک سے انتقام لیں گے۔ جہاں تک عمران خان کے موجودہ مقدمے کا تعلق ہے تو یہ ایک سیدھا سا جرم ہے جو انہوں نے کیا ہے اور ان کے ساتھ سخت ترین انضباطی رویہ رکھا جانا چاہئے کہ ایک وزیر اعظم ہوتے ہوئے انہوں نے دروغ گوئی سے کام لیا۔ جبکہ اس کے برعکس اپنی دور حکومت میں محض ان کے سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والے قیدیوں کے بارے میں ان کی باتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ وہ کس طرح ہزاروں لوگوں کے اجتماعات میں منہ پر ہاتھ پھیر کر کہتے تھے کہ میں جیل میں ملنے والی ان کی مراعات ختم کروائوں گا۔ میں ان سب کو رلائوں گا۔ موجودہ حکومت جو کہ اب رخصت ہو رہی ہے۔ اس پر یہ الزام لگانا کہ یہ انتقام لے رہے ہیں یا عمران خان کو آئندہ اپنے انتقام کا نشانہ بنائیں گے تو یہ سراسر جھوٹ اور محض الزام ہو گا کیونکہ اب اس حکومت کے چند دن رہ گئے ہیں۔ نہیں لگتا کہ یہ عمران خان کو تنگ کر سکیں گی۔ اس کے بعد ویسے ہی نگران حکومت آ جائے گی۔
پاکستان کے سیاسی مباحثوں میں اٹک قلعے کا ذکر استعارے کے طور پر ہوتا رہتا ہے جبکہ اٹک جیل بھی ماضی کے ادوار میں کئی سیاسی رہنمائوں کا ٹھکانہ رہ چکی ہے۔ جب سابق فوجی آمر جنرل مشرف نے ملک کا اقتدار سنبھالا تو شہباز شریف کو اٹک جیل میں قید رکھا گیا۔ انہیں احتساب عدالت کی جانب سے ایم آئی ایٹ ہیلی کاپٹرز کی خریداری میں کِک بیکس لینے کے مبینہ الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ سردار مہتاب احمد خان، سابق وزیر مواصلات اعظم خان ہوتی، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور نواز شریف کے بیٹے حسین نواز بھی اٹک جیل میں قید کاٹ چکے ہیں۔ 1999ء میں اس وقت معزول کئے گئے وزیراعظم نواز شریف کو اٹک قلعے میں قید رکھا گیا اور اس کے بعد انہیں 10برس کے لئے جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ اٹک جیل اور اٹک قلعہ دو الگ الگ جگہیں ہیں۔ اٹک جیل شہر کے اندر راولپنڈی پشاور ریلوے ٹریک کے ساتھ واقع ہے۔ یہ جیل برطانوی حکمرانوں نے 1905میں تعمیر کی تھی۔ اٹک جیل کا کل رقبہ 67ایکڑ چھ کنال اور 12 مرلے ہے۔ اس کی عمارت 17ایکڑ اراضی پر محیط ہے۔ اس میں جیل کالونی کا علاقہ 26ایکڑ دو کنال جبکہ 22ایکڑ چار کنال رقبہ زرعی زمین پر مشتمل ہے۔ جیل کے رقبے میں دو ایکڑ زمین بنجر ہے۔ اٹک جیل میں 539قیدیوں کی گنجائش ہے، تاہم اس میں 804افراد قید ہیں جبکہ اٹک قلعہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی سرحد پر دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ اس کا ایک داخلی دروازہ راولپنڈی پشاور جی ٹی روڈ کی جانب بھی کھلتا ہے۔ یہ قلعہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں 1581کو تعمیر کیا گیا۔ تقسیم ہند کے بعد سے یہ قلعہ پاکستانی فوج کے کنٹرول میں ہے۔ اسے 1947 کے بعد فوج کی ساتویں ڈویژن کا ہیڈکوارٹر بنایا گیا تھا بعد ازاں 1956میں یہ قلعہ فوج کے خصوصی آپریشنز کے شعبے سپیشل سروسز گروپ ( ایس ایس جی) کے حوالے کر دیا گیا۔ ملٹری بیس ہونے کی وجہ سے اس قلعے میں سیاحوں کو داخلے کی اجازت نہیں۔ اٹک جیل اور اٹک قلعے کے درمیان 18کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے اٹک جیل 67کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اٹک جیل اور قلعہ کی علیحدہ علیحدہ تفاصیل یہاں درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اب یہ اٹک شہر بقول پی ٹی آئی کے فدائیوں کے عام شہر نہیں رہا۔ عالم اسلام کے عظیم لیڈر عمران خان کی اسیری کی نسبت سے اب یہ تاریخ کے گلے میں اٹک گیا ہے۔ لہٰذا اسے اب اٹک شریف کہنا زیادہ مناسب اور محفوظ ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button