تھانہ بنام پولیس افسران

فیاض ملک
ایک کسان نے کھیتوں میں بٹیرے پکڑے، اس بیچارے کو علاقے کے تھانیدار سے کئی کام تھے، اس نے سوچا کہ چلو تھانیدار صاحب کو خوش کرتے ہیں، چنانچہ اس نے تھانیدار کے گھر کے باہر پہنچ کر باہر سے ہی آواز دی اور کچھ ایسا مختصر سا مکالمہ ہوا ( یاد رہے کہ پنجاب میں دیواروں کے آرپار بولنا معیوب نہیں سمجھا جاتا) کسان: تھانیدار جی: گھر میں ہو، اندر سے تھانیدار بولا ہاں اوئے، کی آ: کسان: بٹیرے کھاندے او ( اِتنے میں ایک سِتم ظریف وہاں سے گزر رہا تھا، اس نے آہستہ سے بتا دیا کہ کل تھانے کی خراب حالت زار پر افسران بالا نے ناراض ہوکر اس کا تبادلہ کر دیا ہے) تھانیدار: آہو کھا لینے آں: کسان: چنگا فیر پھڑیا کرو تے کھایا کرو۔ یقین جانئے بیٹرے کھانے کیلئے اہمیت کرسی پر بیٹھنے تک ہیں، ورنہ خود ہی پکڑنا اور خود ہی کھانا پڑتا ہے، کس طرح پولیس میں تعینات ماتحت افسران اور اہلکار اپنی تعیناتیوں کو برقرار رکھنے کیلئے محدود وسائل میں لاتعداد محکمانہ مسائل کو اپنے تئیں حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ، جس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے شہر میں ماڈل قرار دیئے جانیوالے تھانہ مزنگ اور تھانہ سول لائنز کا دورہ کیا، اس موقع پر سائلین کی رشوت کی شکایات، دونوں تھانوں کی بری حالت، صفائی کا ناقص انتظام ، تھانے کا فرنٹ ڈیسک بھی درست کام نہیں کر رہا تھا جبکہ عملہ بھی وزیر اعلیٰ صاحب کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا، وزیراعلیٰ محسن نقوی کی جانب سے پولیس انتظامیہ پر انتہائی برہمی کا بھی اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں تھانوں کا دورہ کر کے مایوسی اور زمینی حقائق سے آگاہی ہوئی۔ تاہم انہوں نے ان دونوں تھانوں کو بہتر بنانے کیلئے آئی جی پنجاب کو ٹاسک دے دیا ہے، نگران وزیر اعلی شہر کے ماڈل تھانوں کے دورے کے بعد میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اگر کہیں وہ خدا نخواستہ تھانہ شاہدرہ ٹائون ،مصری شاہ ،شادباغ ، مغلپورہ، سمن آباد،ہنجروال، گجر پورہ ،ساندہ ،بھاٹی گیٹ اور باٹاپورسمیت کسی اور بوسیدہ تھانے کے دورے پر چلے جاتے تو شاید وہاں کے زمینی حقائق کو دیکھ کر ان کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوجاتا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت تھا کہ محکمہ پولیس میں ایس ایچ او شپ اور سرکل میں ایس ڈی پی او شپ کی کامیابی کیلئے مستند مخبروں پر مشتمل نظام کی ضرورت ہوتی تھی، جس کی مدد سے ایس ڈی پی او اور ایس ایچ اوز جرائم پیشہ عناصر کیخلاف موثر کارروائیاں عمل میں لاتے تھے، جرائم پیشہ افراد کی دنیا میں ان کے نام کے ڈنکے بجتے تھے ، جس تھانے یا سرکل میں ان افسران کی پوسٹنگ ہوتی تھی وہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہوجاتی تھی، لیکن اب نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے تھانوں پر چھاپوں کے سلسلے کے بعد صورتحال اس سے مکمل طور پر برعکس ہوچکی ہے، اب صرف اسی ایس ایچ او اور ایس ڈی پی او کی پوسٹنگ کامیاب اور محفوظ تصور کی جارہی ہے جس کے نیٹ ورک میں رنگ و کلی کا کام کرنیوالے، ٹائل پتھر کے کاریگر، پلستر کے مستری، مالی اور خاکروب موجود ہیں، کیونکہ اب پھر حکمرانوں اور پولیس ( کرتا دھرتائوں) کی جانب سے ایک بار پھر تھانوں کی حالت زار کو تبدیل کرکے انہیں جدید خطوط پر استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے، اب اس خواب کی تکمیل کیلئے فنڈز ہوں یا نہ ہوں مگر خواب کی تکمیل ضروری ہی، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب تھانہ کلچر کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں لیکن جانے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ماہ و سال گزر جانے کے باوجود یہ تھا نے آج بھی شکستہ دیواروں، درمیان سے گری ہوئی چھت اور بغیر حوالات اور گیٹ کے اپنی یتیمی کا رونا رو رہے ہیں، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تھانے میں ایس ایچ او کے عہدہ پر تعینات ہونیوالے انسپکٹرز و سب انسپکٹر ز جب کسی بھی سینئر آفیسر کو تھانوں کی حالت زار اور دیگر مشکلات سے آگاہ کرتے ہوئے انکے حل کیلئے مدد طلب کریں تو عموما ان کو یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں، مجھے نہیں معلوم، میرے پاس ان معاملات کو لیکر دوبارہ نہیں آنا اور ہاں اگر ان کو ٹھیک نہیں کر سکتے تو ( پوسٹنگ) کو چھوڑو اور لائن میں رپورٹ کرو، یہ سننے کے بعد وہ بیچارہ آفیسر اپنی پوسٹنگ کو محفوظ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے تھانے کی حالت زار کیساتھ ساتھ پٹرولنگ کیلئے موجود دھکا سٹارٹ گاڑی کے ٹائر اور بیٹری کو تبدیل کرنے کیلئے علاقے کے مخیر حضرات کی مدد لینے کے چکر میں گھن چکر بن کر رہ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی بیشتر تھانوں کا کل اثاثہ اس میں سالہا سال سے موجود چند بوسیدہ پھٹے ہوئے رجسٹر ہیں، جن پر ہر نئے افسر کی آمد پر نئے کور چڑھائے
جاتے ہیں ، تھانے میں محرر اور تفتیشی افسر ان کے کمروں میں کچھ ٹوٹی کرسیاں جن میں سے کچھ کے بازو نہیں اور کچھ کی کمر تک نہیں ہوتی، اور کچھ نیچے سے ننگی ہوتی ہیں، جن پر بیٹھنے کیلئے لکڑی کی پھٹی رکھی ہوتی ہے۔ یہی نہیں، چند ٹوٹے ہوئے ٹیبل، جن کے ٹوٹے شیشوں کے اندر، وکیلوں، سیاستدانوں، روزنامہ چاند ستارے، دھجیاں، یو ٹیوب جینلز وغیرہ کے صحافیوں کے کارڈ نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ اس ٹوٹے پھوٹے فرنیچر اور بوسیدہ عمارت میں بیٹھ کر پولیس اہلکار صبح و شام اپنا اور ہر آنیوالے کا کلچر درست کرتے رہتے ہیں، ماڈل ، سپر ماڈل اور سٹیٹ آف دی آرٹ کے نام پر درجنوں تھانوں کی تعمیر گزشتہ کئی سال سے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے رکی پڑی ہیں، بیشتر تھانے بوسیدہ فلیٹوں، دکانوں ، کرائے کی خستہ حال عمارتوں، کنٹینرز، خیمہ بستیوں ، گندے نالوں کے کناروں پر واقع ہیں، جن کے کروڑوں روپی کرائے کی مد ہر ماہ محکمہ کو برداشت کرنے پڑتے ہیں، ان تھانوں میں نہ کوئی غسل خانے کا کوئی خاص انتظام، نہ کھانے کا انتظام اور نہ ہی پرسکون ماحول ہیں، اگر تھانہ سسٹم ٹھیک ہو گا تو تمام محکمہ پولیس ٹھیک ہو جائے گا، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی ادوار سے پولیس ریفامرز کے نام پر کئے جانیوالے بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود پولیس کے حالات تو نہیں بدلے، البتہ یہ کھیل کھیلنے والے پولیس افسران کی اپنی حالت ضرور بدل گئی ہے، تھانہ جوکہ محکمہ پولیس کا بنیادی یونٹ ہے، لیکن افسوس کہ ہر دور کے پولیس افسران نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے اس یونٹ کو یکسر نظر انداز کئے رکھا اور نئے نئے شعبوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے تھانوں کو ملنے والا فنڈز بھی ان شعبوں میں خرچ کیا، تھانے کو ضروری سہولتوں سے آراستہ کئے بغیر ہم تھانہ کلچر بدلنے کا نیا تجربہ کرتے ہیں، اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان سہولیات کے ساتھ پنجاب بلکہ پاکستان پولیس ناروے اور سوئٹزرلینڈ کے پولیس کلچر کا مقابلہ کرتی ہے، جس سے تھانہ کلچر تو بالکل تبدیل نہیں ہوتا، تھانہ کلچر کی تبدیلی کا سوال اس لئے اٹھانا پڑ رہا ہے ارض پاک کے قیام کو 76سال گزر گئے مگر تھانہ کلچر ہے کہ بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہا، آخر یہ تھانہ کلچر ہے کیا؟، یہ کونسی ایسی بلا ہے جوکہ قابو میں نہیں آرہی ؟، یہ کب تبدیل ہوگا؟، ان سوالات کے جوابات تاحال زیر بحث ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ زیر بحث ہی رہیں گے ۔





