Column

سرکاری ملازمین کا کامیاب احتجاجی دھرنا

چودھری غلام غوث
1970ء کے عشرے میں کیڈٹ کالج حسن ابدالی کے انگریز پرنسپل کرنل ( ر) جے ڈی ایچ چیپ ہوا کرتے تھے، اُنہوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ 1968ء کا ذکر ہے ایوب خاں حکومت کے خلاف احتجاج زوروں پر تھا وہ کافی عرصے سے پاکستان میں مقیم تھے۔ اُنہیں حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران جلائو گھیرائو اور بڑھتے ہوئے تشدد کے حوالے سے پاکستان کی فکر رہتی اُنہیں اپنے شاگردوں کو انگلستان کی مثالیں دینے کا شوق تھا، ایک روز دل سوز لہجے میں بتایا کہ لندن میں لوگوں کو اگر کسی فیصلہ سے اختلاف ہوتو وہ پلے کارڈز پر اپنے مطالبات لکھ کر اُس ادارے کے دفتر کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں متعلقہ ادارے کے کرتا دھرتا اُنہیں دیکھ کر یقین دلاتے ہیں کہ مطالبات نوٹ ہو گئے ہیں اگر معاملہ وزیر اعظم کی سطح کا ہو تو عوام 10ڈاوئنگ سٹریٹ پہنچ جاتے ہیں وزیر اعظم دفتر میں موجود ہوں تو وہ کھڑکی میں آکر ہاتھ ہلاتے ہیں اگر وزیراعظم موجودہ نہ ہوں تو ان کا مقرر کردہ نمائندہ مظاہرین سے تحریر ی درخواست وصول کر لیتا ہے اور اُس پر قانون کے مطابق ضروری کاروائی کا یقین دلاتا ہے ۔
کرنل صاحب بتاتے کہ لندن کا میڈ یا احتجاج کرنے والوں کے مطالبات خوب اُجاگر کرتا ہے اور حاکم وقت کی توجہ مرکوز ہوجاتی ہے کرنل چیپ نے ایک واقعہ بتایا کہ ایک مرتبہ لندن کے ڈاکٹر ز کا کوئی خاص مطالبہ تھا جس کو حکومت ماننے سے گریزاں تھی ڈاکٹرز کی تنظیم نے پریس کانفرنس کی اور مطالبہ پورا کرنی کے لیے حکومت کو دو دِن کا وقت دیا ورنہ تیسرے روز مکمل ہڑتال کا اعلان کردیا۔) بیانات اخبار کی زینت بنے اگلے روز لندن میں ٹرانسپورٹ تنظیموں کے نمائندے ڈاکٹرز کی تنظیموں کے نمائندوں کے پاس جا پہنچے اور درخواست کی کہ ڈاکٹر صاحبان کی خدمات خالصتاً عوام کی صحت اور بہبود سے متعلق ہیں اور ایمرجنسی سروسز میں آتی ہیں اس میں انسانیت کی خدمت پنہاں ہے لہذا آپ لوگ ہماری بات مانیں آپ ہڑتال نہ کریں اس کی جگہ آپ کی دی گئی تاریخ پر لندن میں پہیہ جام ہڑتال ہم کریں گے اور یہ معاہدہ مکمل طور پر خفیہ رہے گا۔
دوطرفہ بات طے پا گئی ڈاکٹروں کے ہڑتال والے دِن عجب معاملہ ہوا لندن بھر میں ٹرانسپورٹ غائب پہیہ جام ہوگیا انتظامیہ حیران و پریشان ہوئی ٹرانسپورٹ تنظیموں سے رابطہ کیا تو اُن کا موقف سامنے آیا کہ آپ لوگ لندن کے ڈاکٹرز کے مطالبات پورے کر دیں ہم ٹرانسپورٹ چلوادیں گے حکومتی نمائندوں کے استفسار پر ٹرانسپورٹرز نے کہا کہ ڈاکٹرز کو ہڑتال نہ کرنے پر ہم نے قائل کیا اور اُن کی جگہ ہم نے ہڑتال کردی یہ خفیہ معاہدہ تھا۔ انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ڈاکٹرز کے مطالبات مان لئے گئے۔ یہ آزاد، خود مختار اور مہذب ملکوں کی مثالیں ہیں۔
مگر میرے دیس میں اس کے برعکس اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنے والے مظاہرین پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کا استعمال اور واٹر کیننن آزما یا جاتا ہے اور بعض اوقات بے رحمانہ تشدد سے اموات ہوجاتی ہیں اور لوگ عمر بھر کے لیے معذور بن جاتے ہیں۔ اب آتے ہیں پنجاب میں دئیے گئے سرکاری ملازمین کے دھرنے کی طرف۔
قارئین کرام! پنجاب کے سرکاری ملازمین نے جن وجوہات کی پنا پر پانچ روزہ دن رات دھرنا دیا اور شدید احتجاج کیا وہ وجوہات واضح فطری اور منطقی تھیں۔ ہوا یہ کہ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں وفاق ، سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختون خواہ میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا ان سب میں گریڈ 1تا16تک 35%جبکہ گریڈ17تا 22تک30%اضافہ ہوا اور پنشن میں وفاق اور تینوں صوبوں میں 17.5%اضافہ کیا گیا۔ اس کے برعکس پنجاب میں گریڈ1تا22تک 30%اضافہ ہوا یعنی گریڈ 1تا16والوں کو 5فیصد کم اضافہ دیا گیا جبکہ پنشن میں ہونے والا اضافہ صرف 5فیصد تھا سب سے خطرناک اور پریشان کن بات یہ ہوئی کہ تنخواہوں میں یہ اضافہ موجودہ جاری بنیادی تنخواہ (Running Basic)کی بجائے ملازمت کے پہلے دن والی کم از کم ابتدائی تنخواہ (Initial Basic) پر کیا گیا یہ ہر اعتبار سے غلط اقدام تھا اور ظالمانہ امتیازی سلوک روا رکھنے کے مترادف بھی تھا دراصل یہ اضافہ دیگر صوبوں اور وفاق کی طرز پر 13فیصد کے قریب بنتا تھا جس پر پنجاب بھر کے ملازمین سراپا احتجاج بن گئے۔ نگران حکومت نے پنشن اصلاحات کے نام پر ایک اور کام کیا جو اِن کے دائرہ اختیار سے باہر تھا ریٹائرمنٹ پر ہر ملازم (گریڈ 1تا22)کو لیوانکیشمنٹ(Leave Encashment)ایک سال کی تنخواہیں جو کہ جاری بنیادی تنخواہ (Running Basic) پر دی جاتی تھیں اُس کو بھی تبدیل کرکے ایک سال کی کم از کم بنیادی تنخواہ (Initial Basic)پر کر دیا۔ جس سے 35تا42سال تک سروس کرنے والے ملازم کو بیٹھے بٹھائے ریٹائرمنٹ پر اچھا خاصا نقصان ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگیا اور اس قانون کا اطلاق یکم جون 2023سے کر دیا گیا۔ یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ حکومت پنجاب سرکاری ملازمین کی پنشن کو بھی (Running Basic)کی بجائے (Initial Basic)کے حساب سے دینے کی سفاکانہ تجویز پر غور کر رہی ہے۔
10جولائی کو سول سیکرٹریٹ کے سامنے ملازمین تنظیموں نے اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دے دیا۔ موسم کی شدت، حبس کی گرمی بھی اُن کے جوش اور ولولے کو ماند نہ کر سکی، منظم احتجاج 5روز جاری رہا، دن رات دھرنا سیکرٹریٹ کے سامنے شد و مد سے بیٹھا مگر حکومتی بے حسی ملاحظہ کریں کسی حکومتی عہدیدار نے چار روز تک خبر نہ لی۔ یہاں تک کہ میڈیا نے بھی دھرنے کی خاطر خواہ کوریج نہ کی۔ اس کامیاب دھرنے میں مرکزی کردار ایپکا پنجاب اور اگیگا پنجاب کا نظر آیا، خاص طور پر لاہور کی تنظیمیں جبکہ پنجاب بھر سے جوق در جوق ملازمین اس دھرنے میں شرکت کے لیے آتے رہے۔ دھرنے کے پانچ دنوں میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق، معروف مذہبی سکالر مولانا ابتسام الٰہی ظہیر، پیپلز پارٹی لاہور کے صدر اسلم گلِ، زندگی کے مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے نمائندوں سمیت واپڈا، ریلوے ، ٹریڈ یونینز کے نمائندوں نے بھی دھرنے سے خطاب کیا اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی اور کھل کر ملازمین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا، دھرنے کے پانچویں روز وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے خصوصی مشیر ملک محمد احمد خاں دھرنے میں آئے اور مظاہرین سے خطاب کیا اور بتایا کہ اُنہیں خصوصی طور پر وزیراعظم پاکستان نے پیغام دے کر بھیجا ہے اور کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں وزیراعظم پاکستان صوبہ پنجاب کے لاکھوں ملازمین سے تنخواہوں اور پنشن کے معاملے پر زیادتی نہیں ہونے دیں گے اور صوبہ بھر کے ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن بھی وفاق اور دیگر صوبوں کی طرز پر بڑھائیں گے۔ جبکہ لیو انکیشمنٹ(Leave Encashment) کے امتیازی قانون کا خاتمہ بھی ہوگا۔ اُن کی مثبت یقین دہانی پر دھرنا ختم کر دیا گیا ۔
ملک محمد احمد خاں اپنے کئے گئے عہد و پیماں پر پہرہ دیتے ہوئے سرخرو ہوئے۔ وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن رضا نقوی نے اس معاملے کو دوبارہ صوبائی کابینہ میں رکھ کر وفاق اور دیگر صوبوں کی طرز پر پنجاب کے ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن بڑھانے کی منظوری دے دی اور بعد ازاں محکمہ خزانہ حکومت پنجاب نے اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے صوبہ پنجاب کے لاکھوں سرکاری ملازمین ( گریڈ1تا22) کو امتیازی سلوک کا شکار ہونے سے بچالیا۔ سرکاری ملازمین کا یہ پانچ روزہ احتجاجی دھرنا کامیاب ہو گیا۔
ملازمین نے جس شدید گرم موسم میں دن رات یکسوئی کے ساتھ اس دھرنے کو جِلا بخشی وہ اپنی مثال آپ ہے، حالانکہ شدید گرمی اور حبس کے دوران کئی خواتین اورمرد ملازمین بے ہوش ہوئے۔ مگر پُرامن دھرنا بامراد ہو کر اختتام پذیر ہوا۔ دھرنے میں موجود خواتین ملازمین کی ہمت کو داد دینی پڑے گی جو کثیر تعداد میں جم کر اپنی موجودگی ظاہر کرتی رہیں۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ ایمپلائز کوآرڈینیشن کونسل اپنے رہنمائوں راجہ سہیل احمد، محمد سلطان گجر، ضیا اللہ خاں نیازی، محمد خاں اعوان اور راقم کی صورت میں شانہ بشانہ موجود رہی اور پل کا کردار ادا کر کے اپنے حصے کا کریڈٹ اپنے نام کیا۔ خصوصی مشیر برائے وزیر اعظم پاکستان ملک محمد احمد خاں سے رابطہ کرنے میں خالد جاوید سنگھیڑہ ( چیئرمین اگیگا)، ظفر علی خاں ( صد ر ایپکا پنجاب)، مختار احمد گجر ( صد ر ایپکا لاہور ڈویژن ) اور مہر محمد یاسین ( چیئرمین ایپکا) نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دیگر ملازمین تنظیمات کے رہنمائوں ڈاکٹر طارق کلیم، پروفیسر ندیم اشرفی، ڈاکٹر عبدالمالک، ملک منیر احمد، شفقت رسول سندھو، منور اقبال، فخر الرحمان اظہر، چودھری صفدر، میاں بشارت، بشیر وڑائچ، رانا لیاقت علی، ضیاء اللہ چودھری، گُل نواز سواتی، وفاق سے آئے ہوئے رحمان باجوہ، اور خاتون رہنما رخسانہ انور نے دن رات ایک کر کے اپنے اپنے محکمہ جات کے ملازمین کی موجودگی دھرنے میں یقینی بنائی جو دھرنے کی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ ہزاروں ملازمین نے اس شعر کے مصداق ثابت کیا:
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا

جواب دیں

Back to top button