Column

نگران سیٹ اپ کے بعد احتساب

سیدہ عنبرین
ایک صدی اس جملے کا بھرم قائم جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ مگر اب نہیں، لاہور کبھی باغوں، درسگاہوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ اب صرف فیکٹریوں کا شہر ہے، اب لاہور کا رخ کرنے والے ادھر اس لئے نہیں آتے کہ انکا شمار ان لوگوں میں ہو سکے جو پیدا ہو چکے ہیں۔ بلکہ انہیں بتایا، پڑھایا اور سمجھایا جاتا ہے کہ لاہور میں ہر شے کی لوٹ مار کسی ایک شعبے میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ اسے ختم کر نے کے بجائے اس میں اپنا حصہ ہی ڈالا ۔ ایف اے یا میٹرک کے امتحانات کے نتیجے آنے کے بعد پوزیشنز حاصل کرنے والے بچوں کے مختصر انٹرویو، اخبارات اور پی ٹی وی پر دکھائے جاتے تھے۔ جس لڑکے یا لڑکی سے پوچھا جاتا کہ بڑے ہو کر یا آئندہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا کرنا چاہیں گے۔ طلبا و طالبات کے دو ہی جواب ہوتے تھے، ڈاکٹر بن کر قوم کی دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں یا فوج میں شامل ہو کر وطن کی خدمت کرنا چاہوں گا۔ اب وقت بدلتے اور معاشرتی ترقی کے بعد طلبا کے سامنے ان دو شعبوں کے علاوہ دو سو کے قریب شعبے ہیں جن میں ترقی کے بہت مواقع ہیں۔ اب اول تو کسی بچے سے سوال ہی ہوتا کہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے، بچے کا بچپن رخصت ہو چکا ہوتا ہے، معصومیت ختم ہونے کے بعد بچہ نہیں رہتا بلکہ براہ راست جوان ہو جاتا ہے۔ آئندہ زندگی کے بارے میں وہ جو جواب بھی دے وہ اسکی خواہش اور ضروریات کے مطابق ہو گا۔ اس کے جواب میں اب وطن کی خدمت یا دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کا جذبہ تو بہت دور کی بات ہے، خدمت کا لفظ اسکی زباں پر بھی نہیں آتا۔ وسائل پر قبضے کی ایک دوڑ لگی ہے اس دوڑ کو جیتنے کیلئے اب ہر ناجائز کام جائز قرار پا چکا ہے۔ اپنے آس پاس نظر دوڑائیے نوے فیصد پیدا ہونے والے بچے نارمل ڈیلیوری کے ذریعے اس بنا نہیں لائے جارہے، ہر ایک کے ساتھ سیزرین لکھا نظر آئیگا یہ دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے کبھی ماضی میں ہوا کرتے تھے اب ان کا نصب العین انسانیت کو مزید دکھی کر کے اپنا مستقبل روشن کرنا ہے ۔ ڈیلیوری نارمل ہو گی تو معاوضہ فقط چند ہزار، سیزرین بنائی جائیگی تو اس کا بل لاکھوں میں ہوگا۔ ہسپتال کے کمرے کا کی روز کا کرایہ فائیو سٹار ہوٹل کے کمرے کے کرایے سے بڑھ چکا ہے۔ مجال ہے کسی دور کی سرکار کو اس کی خبر ہوئی ہو یا اس نے اس مافیا کی کبھی خبر لی ہو۔
کسی بھی تکلیف کے علاج کیلئے کسی بھی ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں وہ نصف درجن ٹیسٹ لکھ کر دے گا اور تاکید کرے گا کہ فلاں لیب کے پاس چلے جائیں، پھر پانچ چھ مرتبہ فیس جھاڑ نے کے بعد کہے گا کہ میرے خیال میں تو آپ کو فلاں تکلیف ہے لیکن احتیاط سیکنڈ اوپینین کے طور پر آپ فلاں سپیشلسٹ کو دکھائیں۔ سیکنڈ اوپینین دور جدید کا فیشن ہے، جس نے مریضوں اور ان کے خاندانوں کو کنگال کر دیا ہے۔ اس میں بڑا کردار ان محکموں کا ہے جہاں طبی سہولیات کے نام پر میڈیکل بل کسی ادارے نے ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کی دوسری بڑی ذمہ داری محکمہ صحت کی ہے جہاں کسی کی کارکردگی کا ریکارڈ نہیں ہوتا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جس گائنا کالوجسٹ کی نوے فیصد کرائی گئی ڈیلیوریز، سیزرین میں اسے تو نااہل قرار دے کر نوکری سے نکال دینا چاہیے، اس کی پرائیوٹ پریکٹس پر پابندی لگا کر اس کا لائسنس معطل کرکے اسے ایک مرتبہ تربیتی مراکز میں بھیج دینا چاہیے، تاکہ وہ پڑھ تو بہت چکا ہے لیکن اس نے عملی کام نہیں سیکھا۔
ہمارے معاشرے میں لیڈی وزیٹر کا کردار بہت اہم ہوا کرتا تھا اب بھی وہ اس حوالے سے نامور ہیں کہ ان کے پاس گائوں دیہات یا کم ترقی یافتہ علاقوں میں جانے والی زچہ کی ڈیلیوری نوے فیصد نارمل ہی ہوتی ہیں۔
قصائی فطرت گائنا کالوجسٹ مرد و خواتین عورتوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔ اس مجرمانہ پریکٹس کا نوٹس لینا بہت ضروری ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ او ر غیر ترقی یافتہ ممالک میں نوزائیدہ بچوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں۔ پچانوے فیصد نارمل ڈیلیوری نظری آئے گی، کیونکہ ماں کی حکومت اور ادارے اپنے ڈاکٹروں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔
گزشتہ برس حجاز سے پانچ سو کے قریب سپیشلسٹ ڈاکٹروں کو بلیک لسٹ کرکے ملک بدر کر دیا گیا ان میں سب کے سب اپنا پاکستانی تھے ان پر الزام ثابت ہوا کہ وہ فارما کمپنیوں سے اپنا کمیشن لے کر انکی مہنگی ترین ادویات اپنے مریضوں کو لکھ کر دے رہے تھے۔ جبکہ ان کے ساتھ ملازمت کی شرائط میں لکھا گیا تھا کہ وہ اپنے مریضوں کو مارکیٹ میں موجود سستی ترین ادویات خریدنے کیلئے لکھ کر دیں گے۔ پاکستان کے ہر صوبے میں ایک جیل ہونی چاہیے۔ جہاں ان مجرموں اور ان کے ساتھ ملاوٹ مافیا کو رکھا جائے۔ اٹک جیل، مچھ جیل کے ساتھ لاہور کا شاہی قلعہ اس مقصد کیلئے بہترین استعمال ہے، عمران خان کے اٹک جیل جانے سے جیل کی رونق میں خاص اضافہ نہیں ہوا، اس کے زمانہ اقتدار میں جن ناسوروں نے جڑ پکڑی ہے، جیلوں پر کچھ حق انکا بھی ہے، وہ بھی جیلوں کے حق دار ہیں، سننے میں آرہا ہے کہ نگران سیٹ اپ کے بعد احتساب شروع ہوگا، خدا کرے ایسا ہی ہو مستقل حکومتیں تو اپنی لسٹ سے یہ لفظ نکال چکی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button