Column

مہنگائی کا سیلاب اونچے درجے کا

روہیل اکبر
ایک طرف ملک میں حکومت کی آئینی مدت پوری ہورہی ہے تو دوسری طرف ملک میں مہنگائی کا طوفان اور سیلاب آیا ہوا ہے، وہ بھی اونچے درجے کا، جس پر کسی کی توجہ نہیں ہے بلکہ اس سے ہٹ کر آج کل جو نئی بات مارکیٹ میں پھیلائی جارہی ہے کہ یہ الیکشن اس وقت تک ہوتے نظر نہیں آرہے، ایک بات تو سب کو ماننی پڑے گی کہ ملک میں سیاسی استحکام کیلئے آئینی مدت کے اندر الیکشن کروانے پڑیں گے، خواہ جھرلو الیکشن ہی کیوں نہ ہوں، اس کے بغیر گزارا نہیں، رہی بات صاف اور شفاف الیکشن کی، وہ ہماری تاریخ میں ہوئے ہیں نہ ہی ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں آج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے سب پرسیاستدانوں کے تحفظات رہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن پھر جب کسی طرف سے اشارہ ہوتا تو پھر وہی افراد اسمبلیوں میں بھی پہنچ جاتے اور حکومتی اقدامات کا حصہ بھی بنتے لیکن الیکشن کبھی آگے پیچھے نہیں ہوئے۔ اس بار بھی پی ڈی ایم کی حکومت کو الیکشن ہر صورت کروانا ہی پڑیں گے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابی التواء کے لیے پنجاب اور کے پی کے کی طرح حربے استعمال کئے گئے تو بڑا سیاسی بحران جنم لے گا اور پھر حالات مزید خراب ہوجائیں گے اور ہم مزید بحرانوں کا شکار ہو جائیں گے۔ اس وقت بھی ہم شدید معاشی بحران کا شکار ہیں، غریب کی خودکشیوں نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی شخص نہ صرف خود موت کو گلے لگا رہا ہے بلکہ اپنے بچوں کو بھی زہر دیکر انکی زندگیاں ختم کرکے اس بحران سے نکل رہا ہے۔ پچھلے چند دن سے سوشل میڈیا پر لوگوں کی خود کشیوں کی تصویریں وائرل ہو رہیں، جنہیں دیکھ کر دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ یہ کیسے حکمران ہم پر مسلط کر دئیے گئے ہیں جو اپنے بچوں کا گرمیوں میں پسینہ بھی برداشت نہیں کرتے تو دوسری طرف قوم کے بچے بھوک سے سسک رہے اور علاج نہ ہونے پر مر رہے ہیں۔ سیاستدانوں سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں پر کرپشن کے ڈھیروں ڈھیر الزامات ہیں، لوٹ مار کی کہانیاں عام ہیں، پانی کی ٹینکیوں تک سے لوٹ مار کا کروڑوں روپے برآمد ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانیوں کے پھیلے ہوئے اثاثے چیخ
چیخ کر لٹیروں کی داستانیں سنا رہے ہیں اور ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ عدالتیں اور ادارے طاقتور کا احتساب نہیں کر سکے بلکہ ان اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد نے بڑے سے بڑے کرپٹ کا ساتھ دیا۔ وہ بھی اس لیے کہ ان سے مفادات حاصل کر سکیں، یہی وجہ ہے آج تک کسی کی مہنگائی پر چیخ نکلی اور نہ ہی ٹیکسوں کی بھر مار پر کوئی ایکشن لیا گیا۔ ملک میں مہنگائی تو پہلے ہی عروج پر ہے اور اوپر سے حکومت نے جاتے جاتے بجلی کا ٹیرف بڑھا دیا ہے، آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بجلی مزید مہنگی کرنا حکومتی ناکامی اور مہنگائی بیروزگاری اور غربت وافلاس کے مارے عوام کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ حکومت بجلی چوری اور لائن لاسز اور کرپشن کے خاتمے کی بجائے مسلسل بجلی مہنگی کرنے کے ساتھ بجلی صارفین کے بلوں میں نت نئے اور بھاری ٹیکسز لگاکر عوام سے زندہ رہنے کا حق بھی چھیننا چاہتی ہے۔ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ اور بھاری بلوں سے لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ صرف ایک سال کے دوران عملے کی ملی بھگت سے 230ارب روپے کی بجلی چوری ہو چکی ہے۔ مٹھی بھر حکمران ٹولے اور کرپٹ اشرافیہ نے اپنی عیاشیاں بند کرنے کی بجائے غربت، ظلم و ناانصافیوں کی چکی میں پسنے والے عوام کو قربانی کا
بکرا سمجھ رکھا ہے۔ کمر توڑ مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن جبکہ حکمرانوں و بیوروکریسی کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔ عوام دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان حال تو دوسری جانب حکمرانوں کے کتے و بلیاں بھی دودھ، گوشت کھارہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران غریبوں کو لوٹنے کی بجائے اپنی مراعات اور غیر ترقیاتی اخراجات ختم کرتے، خاص کر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت جن وعدوں پر قائم ہوئی تھی ان میں سے ایک بھی پورا کر دیتے تو شائد عوام کو سکھ کا سانس آجاتا، مگر مہنگائی کے خلاف ریلیاں نکالنے والوں نے اقتدار ملتے ہی مہنگائی کے جن کو بوتل سے نکال دیا اور سبھی نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ملک میں چینی، آٹا مافیا اربوں کما رہے ہیں اور غریب کو دو وقت کا کھانا دستیاب نہیں۔ بیڈ گورننس، کرپشن اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ دو فیصد حکمران اشرافیہ وسائل پر قابض ہیں چند خاندان قوم کی تقدیر کا فیصلہ بند کمروں، واشنگٹن، دبئی اور لندن میں کرتے ہیں،۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کو عوام کی مشکلات کا حقیقی معنوں میں ادراک نہیں ہے مگر میں سمجھتا ہوں حکمران سیاسی لوگ ہیں، لوگوں سے ملنا جلنا بھی ہے، انہیں ہر چیز کا علم ہے لیکن بے حس بنے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام بدحال رہے اور مہنگائی کا نہ رکنے والے سلسلہ یونہی عوام کی چیخیں نکالتا رہے تاکہ انہیں ہوش ہی نہ رہے، عوام اپنی دال روٹی کے چکر میں رہیں اور حکمران طبقہ اپنی موج مستیوں میں گم رہے۔ اس وقت غریب انسان جتنا گھر کا کرایہ دے رہا ہے اس سے زیادہ تو بجلی کے بل آرہے ہیں۔ خاص کر بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ نے غریب عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ حکمرانوں سی لوڈ شیڈنگ کا عذاب تو ختم نہ ہو سکا، البتہ ہر پندرہ، بیس دن بعد غریب عوام کو بجلی کا جھٹکا ضرور دیا جاتا ہے، جس سے بالواسطہ اور بلا واسطہ مہنگائی کا اونچے درجے کا سیلاب آیا ہے، جس کی تند و تیز اور ظالم لہروں میں بے بس اور مجبور غریب عوام خس و خاشاک کی طرح بہتے جا رہے ہیں۔ حکمران اپنی عیاشیوں اور غلط حکمت عملی کے باعث ہونے والے خسارے کو عوام کا خون نچوڑ کر پورا کرتے ہیں۔ مہنگائی، بے روز گاری، رشوت ستانی اور جرائم کی شرح میں اضافہ اور امن و امان کی خوفناک صورتحال نے غریب عوام کا جینا پہلے ہی دوبھر کر رکھا ہے، ایسے میں ان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے مصائب اور تکالیف کم کرنے کے بجائے آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا ظالمانہ عمل مسلسل جاری ہے، جوکہ غریب عوام پر انتہائی ظلم ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غریب عوام کے درد اور مسائل کو سمجھنے والا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنیوالا کوئی نہیں۔

جواب دیں

Back to top button