Column

چوتھی مرتبہ اقتدار

سیدہ عنبرین

ملک میں بسنے والے ایک ظلم عظیم کے بھاری پتھر تلے آنے سے بال بال بچے ہیں، اس کا کریڈٹ تین مرتبہ کے منتخب اور تینوں مرتبہ مختلف انداز میں اقتدار سے بے دخل کئے گئے سابق وزیراعظم جناب نواز شریف کو جاتا ہے جنہیں اچانک اطلاع ملی کہ وزارت خزانہ اور اوگرا ملکر عوام کے خلاف کوئی نا مناسب اقدام اٹھانے لگے ہیں انہوں نے فوراً نوٹس لیا اور حکومت پاکستان کو ایسا اقدام اٹھانے سے باز رہنے کا حکم دیا جس پر دونوں اداروں میں زلزلہ آ گیا، تمام افسر تھر تھر کانپنے لگے اور انہوں نے اپنے منصوبے پر عملدرآمد روک دیا جس کے بعد ایک اہم اجلاس طلب کر کے صورتحال پر غور شروع ہو گیا ، یہ اجلاس را ت دو بجے تک جاری رہا ۔ اس بات کی تصدیق تو نہیں ہو سکی لیکن یہ میرا گمان ہے کہ جناب نواز شریف بھی امریکہ میں اس وقت جاگ رہے ہونگے اور اس اجلاس کی لمحہ بہ لمحہ خبر رکھ رہے ہونگے، دوسری طرف اس اجلاس میں شریک تمام افسران کو بھی بھنک پڑ گئی کہ کوئی انہیں ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھ کر بھی دیکھ رہا ہے، اگر آپ ان سطور سے یہ مطلب نکال رہے ہیں کہ ان افسران کو خوف خدا تھا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے براہ کرم اسے دور کر لیں یہاں مراد اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ جناب نواز شریف ہیں جو خود خرابی صحت کے سبب بادشاہ وقت نہیں بادشاہ گر بنے ہیں انہوں نے یہ قرعہ ایک فیملی ممبر اور اپنے چھوٹے بھائی کے نام نکالا، جب وہ یہ نیک کام کرنے والے تھے تو انہیں سمدھیوں کی طرف سے مشورہ ملا کہ جب تک آپ نا اہل ہیں اور وزیراعظم پاکستان نہیں بن سکتے اس وقت تک وزارت عظمیٰ کا جھولا ہمیں لینے دیں لیکن انہوں نے اس بات کو سنا اور سخت ناگواری کے عالم میں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا اور اس کے ساتھ ہی خفیہ خاندانی ذرائع کے ذریعے سمدھیانے کو پیغام بھیجا کہ آئندہ ایسا سوچنا بھی مت، ساتھ ہی کسی ردعمل آنے کے خطرے کو بھانپتے ہوئے انہوں نے شیریں لہجے میں فون پر ایک اور اہم ترین عزیز سے کہا کہ ملک میں وزیراعظم کا منصب بہت اہم سمجھا جاتا ہے لیکن وزیر خزانہ کا منصب بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے، میں نے آپ کو اگر خزانے پر بٹھایا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی بٹھایا ہے، اس فون کال کے بعد دوسری طرف موجودہ شخصیت کو بے وجہ قرار آ گیا لیکن پھر کچھ عرصہ بعد وقفہ ڈال کر نئی فرمائش بھیجی گئی کہ اگر مستقل وزیراعظم کیلئے رائیونڈ کا رہائشی ہونا ضروری ہے تو پھر نگران وزیراعظم ہی بنا دیں کم از کم باقی بچی عمر میں سابق وزیراعظم کے نام کے دم چھلے کے ساتھ زندگی مزید آسان ہوجائے گی جو پہلے ہی کم آسان نہیں، اس فرمائش کے آتے ہی لندن میں تہلکہ مچ گیا، اکابرین کو جمع کر کے اس نکتے پر غور کیا گیا پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر کڑوا گھونٹ بھرتے ہوئے یہ بات مان لی گئی تو ’’راولپنڈی سماج‘‘ انہیں بہکانے کی کوشش کرے گا، جب انسان سترہ بہترہ ہوجائے تو وہ راولپنڈی کے بہکانے میں بہ آسانی آجاتا ہے، ماضی میں مخدوم امین فہیم تقریباً اس قسم کے بہکاوے میں آ چکے تھے، بہکانے والوں نے ’’زاد راہ‘‘ کے طور پر یا بطور بیعانہ انکے اکائونٹ میں دس کروڑ روپے بھی ٹرانسفر کر دیئے لیکن شیطان کو خبر ہو گئی اس نے منصوبے کا بھانڈا پھوڑ دیا یوں مخدوم امین فہیم وزیراعظم پاکستان بنتے بنتے رہ گئے، بات کہیں اور نکل گئی، پلٹتے ہیں اسلام آباد میں نصف شب تک جاری رہنے والے اجلاس کی طرف جہاں زبردست غور و فکر کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ عوام بھی مر جائیں اور لاٹھی بھی سلامت رہے، پس پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں بیس روپے فی لٹر اضافہ کرنے کے بجائے انیس روپے پچانوے پیسے فی لٹر کا اضافہ کیا گیا، صرف اس احسان عظیم کے بعد اب مسلم لیگ ن بالخصوص اور پی ڈی ایم بالعموم بآسانی آنے والے انتخابات میں کامیابی ہی نہیں بلکہ کلین سویپ کر سکتے ہیں یعنی وہ کلین سویپ ہو سکتے ہیں، یہ فیصلہ ملک و قوم کے عظیم مفاد میں کیا گیا ہے، اس سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ بیس روپے میں سے بچ جانے والے پانچ پیسے کی بچت سے اسے مہنگائی کا مقابلہ کرنے میں آسانی ہو گی، وہ بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور لوڈ شیڈنگ کا مقابلہ کر سکے گا، گھروں کے بڑھتے ہوئے کرائے اور بچوں کی بڑھتی ہوئی سکول کالج یونیورسٹی کی فیسوں اور مہنگی ادویات کے حوالے سے سر پر پڑنے والے بوجھ میں کمی لانے میں کامیاب رہے گا، قوم کو یہ زبردست ریلیف ملنے کے موقع پر دو اہم کام کئے گئے ہیں، گزشتہ برس پچھتر روپے کا کرنسی نوٹ اور سکہ جاری کیا گیا تھا، اس یوم آزادی کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلئے سو روپے کا یادگاری سکہ جاری کیا گیا ہے، قوم کی بدقسمتی اس سو روپے میں آپ اس قدر دودھ دہی گھی گوشت یا ضروریات زندگی نہیں خرید سکے جو کبھی چاندی کے بنے ایک روپے کے سکے میں خرید سکتے تھے، بہر حال یہ سب اس سلسلے کی اہم کڑی ہے کہ چوتھی مرتبہ اقتدار ملا تو قوم کی زندگی بدل کے رکھ دیں گے۔

جواب دیں

Back to top button