عوام پر بجلی گرائی جارہی ہے

روشن لعل
بجلی چاہے آسمانی ہو یا زمینی، دونوں کی عمل پذیری میں الیکٹرون بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ زمینی بجلی کے لیے اگر یہاں آنے اور جانے جیسے لفظ استعمال ہوتے ہیں تو آسمانی بجلی کو گرنا کہا جاتا ہے۔ زمینی بجلی کے آنے سے گھر روشن ہوتے ہیں جبکہ آسمانی بجلی جہاں گرتی ہے وہاں سب کچھ بھسم دیتی ہے۔ ایک عرصہ سے پاکستان میں یہ سلسلہ جاری ہے کہ جو گھر بجلی کے آنے سے روشن ہوتے ہیں ان میں جب بجلی کا بل آتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے وہاں آسمانی بجلی گر گئی ہو۔ یہاں بجلی کا بل آنے پر صرف لوگوں کے اوسان ہی خطا نہیں ہوتے بلکہ تن بدن میں ان دیکھی آگ بھی لگ جاتی ہے۔ قبل ازیں یہ ہوتا تھا کہ بجلی کے بل کی وجہ سے گرنے والی بجلی کے سبب جلنے کی بو اور اٹھنے والا دھواں گھروں تک ہی محدود رہتا تھا۔ اب بجلی کی قیمتوں میں انتہائی بے فکری اور بد لحاظی سے کیے گئے اضافے کے بعد آنے والے بل جو بجلی گراتے ہیں ان کی وجہ سے جلنے کی بو اور اٹھنے والا دھواں ہی نہیں بلکہ لوگوں کی چیخیں بھی ان کے گھروں اور آبادیوں سے باہر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ حکمران اشرافیہ کے جو مختلف چہرے عرصہ دراز سے بجلی کی بلوں کی شکل میں عوام پر بجلی گرا رہے ہیں ان پر لوگوں کی دردناک چیخوں کا اثر ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ عین ممکن ہے کہ یہ چیخیں بلند ہو نے کے بعد خود ہی حسب سابق ہوائوں میں گم ہو جائیں مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی آمدن میں اضافہ کیے بغیر انہیں مہنگی ترین بجلی بیچنے یا مہیا کرنے کا سلسلہ آخر کب تک جاری رہ سکے گا۔
مہنگی ترین بجلی اور محکمہ بجلی کے ملازمین کا عام صارفین کے ساتھ ناروا رویہ لوگوں کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہاں پیش کی جارہی ہے۔ کچھ ماہ قبل اورنج ٹرین سٹیشن جی پی او لاہور کے باہر ایک محنت کش جوڑے کو دیکھا جو اپنے ساتھ سولر بجلی پیدا کرنے والا پینل لیے کھڑے تھے۔ کوئی انسان امیر ہو یا غریب ان کے حوالے سے عمومی تجربہ یہ ہے کہ اپنے استعمال کی کوئی نئی شے خریدنے کے بعد ان کے چہروں پر ایسی خوشی نمودار ہو تی ہے جو چھپائے نہیں چھپتی۔ مگر جو میاں بیوی اورنج ٹرین سٹیشن کے باہر نیا خریدا ہوا سولر پینل لیے کھڑے تھے ان کے چہروں پر گہری اداسی کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آرہا تھا۔ دونوں کو اس طرح دیکھ کر ذہن میں ان سے یہ سوال پوچھنے کا خیال آیا کہ ایک نئی اور جدید سائنسی آئٹم خریدنے کے بعد بھی وہ اداس کیوں نظر آرہے ہیں۔ میرے سوال کرنے پر انہوں نے جواب میں ایسے بولنا شروع کیا جیسے وہ اس انتظار میں تھے کہ کوئی ان سے پوچھے اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے وہ اس کے سامنے اپنا تمام درد بیان کر دیں۔ میرے سوال کا جواب میاں کی بجائے بیوی نے یوں دیا کہ اپنی سونے کی بالیاں بیچ کر نیا سولر پینل خریدنے پر وہ کیسے خوش ہو سکتی ہے۔ ایسا کرنے کی وجہ پوچھنے سے پہلے ہی اس نے بجلی محکمہ کے ملازمین اور ان کے بچوں کے لیے انتہائی ملامت آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے یہ کہانی سنائی کہ محکمے والوں نے سردیوں میں ان کے ایک کمرے کے گھرکا اتنا بل بھیجنا شروع کر دیا جو سخت گرمیوں کے دوران دو لائٹیں اور ایک پنکھا استعمال کرکے بھی نہیں آتا تھا۔ جب انہوں نے محکمے والوں سے وجہ پوچھی تو انہیں بتایا گیا کہ گھر سے باہر کھمبے پر لگا ہوا ان کا میٹر کیونکہ خراب ہو گیا ہے اس لیے جب تک نیا میٹر نہیں لگتا اس وقت تک انہیں اسی طرح بل آتا رہے گا۔ محکمے والے بل تو اپنی مرضی کا بھیجتے رہے مگر دیہاڑیاں توڑ کر دفتر کے بار بار چکر لگانے کے باوجود بھی نیا میٹر نہیں لگایا۔ کسی محلے دار نے کہا کہ مزید بل جمع کرانے کی بجائے محکمے کے بڑے افسر کے پاس جاکر فریاد کرو اور اس سے کہو کہ سردیوں کے موسم میں ان سے سخت گرمیوں سے بھی زیادہ بل کی وصولی کیسے جائز ہو سکتی ہے ۔ محکمے کے بڑے افسر نے کوئی داد رسی کرنے کی بجائے بجلی کے بل پر کچھ لکھ کر اسی افسر کے پاس واپس بھیج دیا جو پہلے ہی اپنے دفتر کے چکر پہ چکر لگوا کر انہیں بے حال کر چکا تھا۔ اس افسر نے کہا کہ جلد از جلد غیر ادا شدہ بل ادا کرو ورنہ بجلی کا کنکشن کاٹ دیا جائے گا۔ ان سے جب بل ادا نہ ہو سکا تو انہوں نے کنکشن کاٹ دیا۔ بجلی کا کنکشن کٹ جانے کے بعد ان کے پاس دو راستے تھے کہ سونے کی بالیاں بیچ کر یا تو بجلی کا بل ادا کر کے کاٹا گیا کنکشن بحال کروایا جائے یا سولر پینل لے کر بجلی کے ناجائز بل اور محکمے کے لوگوں کے غیر انسانی رویے سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے۔
یہ علم نہیں کہ زیور بیچ کر بجلی کا بل ادا کرنے کی بجائے سولر پینل خریدنے والوں کا فیصلہ کتنا صحیح یا غلط ثابت ہوا مگر واپڈا سے ریٹائر ڈ کچھ دوستوں سے مذکورہ کہانی کے حوالے سے جب دریافت کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے محکمہ کے ایس ڈی او ، ایکسیئن ، اور ایس ای ، اپنے سرکل کا ریونیو ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے عام صارفین کے ساتھ وہی کچھ کرتے رہتے ہیں جس کا ذکر اداس میاں بیوی نے کیا۔ اگر کسی کو اس بات پر شک ہو تو لیسکو کی شالیمار سب ڈویژن کا ریکارڈ چیک کر سکتا ہے جہاں گزشتہ سردیوں کے مہینوں میں کئی صارفین کے ڈیفیکٹو میٹروں پر اوسط بل ڈال کر اتنی رقم وصول کی گئی جو ان مہینوں کی سابقہ اوسط سے کتنی زیادہ تھی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ بجلی محکمہ کے ملازم جن صارفین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں ان کے وسیلے سے حاصل ہونے والے ریونیو کی بدولت ہی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے حکمران ایٹمی دھماکوں کے بعد ہنگامی حالات جاری کیے گئے نیپرا ٹیرف اینڈ پروسیجر رولز 1998میں ترمیم کر کے اسے عوام دوست بنانے کی بجائے اس پر اس طرح عمل کرتے ہیں کہ یہاں بجلی کی چوری تو کسی صورت نہ پکڑی جاسکے مگر بجلی چوری اور ملازموں کو مفت بجلی فراہم کرنے سے جو خسارہ ہوتا ہے اسے عوام کا خون نچوڑ کر پورا کیا جائے۔ وطن عزیز میں محکمے کے لوگوں کی ملی بھگت سے کتنی بجلی چوری ہوتی ہے اس کا اندازہ پاور ڈویژن کے سیکرٹری راشد لنگڑیال کی سٹینڈنگ ، قومی اسمبلی کو دی گئی اس بریفنگ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں سال 2022۔23 کے دوران 380بلین روپے کی بجلی چوری کی گئی اور اگر یہاں بجلی کی چوری پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے برسوں میں بجلی چوری 520بلین روپے تک پہنچ جائے گی۔
بجلی کی قیمت میں اضافے اور اضافہ شدہ قیمت پر ٹیکسوں کی بھرمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے محکمہ کے ملازموں کی ملی بھگت سے ہونے والی بجلی چوری کو روکنے کے بجائے عوام پر بجلی گرانے کا عمل جاری رکھنے کو ترجیح دی ہے۔







