
سی ایم رضوان
یہ بات اب قدیم تر اور سنگین تر ہو چکی ہے کہ ملک کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورتحال بہت نازک ہے جبکہ اصلاح اور بحالی کا ایجنڈا بہت بڑا اور کسی حد تک ناقابل عمل ہو چکا ہے۔ متعدد سانحات کے وقوع پذیر ہونے کے باوجود جھنجلا کر کسی نئے اور انقلابی سانحے کی منتظر قوم کو بے مقصد بھٹکتے کے علاوہ کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ اس تمام مبنی بر حقائق صورت حال میں غریب اور پسماندہ، معصوم اور انجان اور بے بس اور بے جان پاکستانیوں کی اکثریت کی حالت زار پر ترس آتا ہے کہ آبادی کی بڑی اکثریت عدم تحفظ اور مستقبل کے بارے میں بے یقینی کی شکار ہے جبکہ حد سے زیادہ تقسیم اور اخلاقی تنزلی جیسا عذاب اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ ناقابلِ حل سیاسی اور سماجی بحران بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی بے بسی اور قومی مایوسی کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل تر ہو چکا ہے۔ اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں، زمینوں پر قبضے، کرپشن، عوامی فنڈز میں خوردبرد، اپنے صوابدیدی اختیارات کا قوانین، اصول و ضوابط کے خلاف استعمال اور امیر و غریب میں روز بروز بڑھتے فرق نے ریاستی اداروں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ بھی کوئی حیران کن بات نہیں کہ متعدد بااثر طبقات کی جانب سے ملکی بقا پر خوفناک سطح پر سمجھوتہ کر لیا گیا ہے۔ ریاست تیزی سے غیرفعال ہوتی جارہی ہے تاہم ابھی تھوڑی توقع باقی ہے کہ موجودہ جزوی سیاسی اور فوجی قیادت اشرافیہ کے منقسم گروہوں کے مابین اشتراک عمل کی کوئی راہ نکالنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں روایتی جاگیردار طبقے، کاروباری افراد، فوجی قیادت، بیوروکریٹس، اشرافیہ اور سیاستدانوں کی نئی نسل کے درمیان ایک ڈھیلے ڈھالے اور کسی حد تک مخدوش قسم کے اتحاد کے قیام کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
جہاں تک کرپشن کی بات ہے تو 1970سے 1990کی دہائیوں کے دوران پبلک سیکٹر میں کاموں کے اضافے کے دوران حکومتی اسکیموں پر تعمیراتی کنٹریکٹرز نے بہت پیسہ بنایا اور ایسے متعدد کیس موجود ہیں جن میں رشوت اور اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افراد ملوث رہے ہیں۔ کچھ عناصر تو راتوں رات زمین سے آسمان پر پہنچ گئے۔ اس ضمن میں وہ پبلک سیکٹر کے اداروں اور دیگر محکموں کے معاہدوں سے حاصل ہونے والی کمیشن سمیٹتے رہے۔ ان کمیشن خوروں میں سے کچھ تو بظاہر اچانک ہی سامنے آئے اور ان کی دولت کی وضاحت یا تو غیر قانونی سرگرمیوں مثلاً منشیات، اسلحے، ایمونیشن کی تجارت یا پھر غیر ملکی کرنسی کی بلیک مارکیٹنگ سے کمائی گئی دولت سے کی جا سکتی ہے یا پھر سول و فوجی بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ ان کی دولت میں بے تحاشا اضافے کا باعث بنا، جس کی بدولت انہوں نے حکومتی کنٹریکٹس کے تحت ہائوسنگ سکیمیں ڈویلپ کیں اور زمینیں حاصل کیں جبکہ دیگر افراد نے اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے سے تعمیراتی شعبے، تجارت، شہری زمینوں پر سٹے بازی، عام استعمال کی اشیاء کی اسمگلنگ سے پیدا ہونے والے مواقع سے دولت بنائی، جس کی بین الاقوامی وجوہات میں افغان جنگ اور نائن الیون کے بعد با آسانی دستیاب غیر ملکی امداد کے باعث ریاست کا مبہم کردار تھا۔ ان دہائیوں میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے کثیر زرِ مبادلہ بھی قانونی ذرائع سے آتا رہا اور ہنڈی مارکیٹ اور منشیات کے دھندے بھی معاون ثابت ہوتے۔ اس دوران فوجی اور سول بیورو کریسی کو وافر مراعات دی گئیں، سول حکمرانوں کی جانب سے اپنے حامیوں اور دوستوں کو کثیر تعداد میں پلاٹس اور لائسنس دیئے گئے، سیاستدانوں کی جانب سے مجرموں کو تحفظ بھی دیا گیا اور مسابقت سے محفوظ رکھے گئے تجارتی گروپس کی جانب سے اجارہ دارانہ منافع خوری اور ان کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے کی مخالفت کا سلسلہ بھی جاری رہا، علاوہ ازیں ایکسپورٹ کی کم قیمت دکھا کر بھاری رقوم بیرون ملک منتقل کی جاتی رہیں اور مہنگے داموں پر امپورٹ بھی جاری رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کنگال ہوتا چلا گیا اور نئی اور پرانی اشرافیہ، بیورو کریسی اور ان کے لاڈلے طبقات امیر تر ہوتے چلے گئے۔ یہ ہیں وہ نتائج ہیں جنہیں اس وقت بھی برداشت کیا گیا اور اب بھی بھگتا جا رہا ہے۔ یہی المیہ ہماری معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے اور اب تک ملک، معاشرہ اور کسی حد تک ریاست بھی ان مفاد پرست سیاست دانوں، بیوروکریسی اور معیشت کے ماہروں اور اجارہ داروں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔
افسوس کہ اب تو معاشرے نے بھی ایسے نظام کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اقدار کو اپنا لیا ہے، یہ نظام دوسرے ممالک میں رائج پیشوں اور تجارت میں تطابق یعنی پروفیشنلز اور مارکیٹ کے تعلقات کو بنیادی اہمیت دینے والے نظام کے نفاذ کی بجائے وہ نظام تسلیم کرتا ہے جو چند بااثر طبقات کے ذاتی و گروہی مفادات، اقربا پروری کے معاون اقدامات اور اجارہ داروں کی سرپرستی کو تسلیم کرنے والے قوانین کے تابع ہے جو میرٹ کے مقابلے میں کنٹریکٹس پر لوگوں کو نوازنے پر مبنی ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں حکومتی ایوانوں میں اختیارات کا غلط استعمال اور ادارہ جاتی کرپشن معمول بن گئی ہے۔ حد تو یہ کہ اب یہ خامیاں انتظامی، سماجی اور سیاسی نظام کے لازمی جزو کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہیں۔ اشرافیہ کی رشوت سے حاصل ہونے والی آمدنی اب بیورو کریسی اور عوامی نمائندگان نے جائز تسلیم کر لی ہے۔ منشیات، اسلحے، کرنسی کے ناجائز دھندے اور حکومتی ٹھیکوں سے حاصل کی گئی دولت کے مالکان معزز و محترم اور لٹنے والے معصوم پاکستانی عام شہری بن چکے ہیں جس کے ہماری مجموعی سماجی اقدار اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر مضر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
چند باشعور شہریوں کی جانب سے بارہا شکایات کے باوجود، سیاستدانوں کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال اور بیوروکریسی کی جانب سے غیر منصفانہ فائدہ اٹھانے اور سسٹم کو چکمہ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ آج بھی حکومتی ایوانوں اور سرکاری اداروں کی طرف سے چند نمایاں طبقات پر عنایات کے تسلسل سے ہر الیکشن میں دھوکہ کے تحت ملک و قوم کے دشمن اور ارض وطن کے غدار ہی ہر بار چہرے، پارٹیاں اور نعرے بدل کر ووٹ حاصل کرتے اور اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور ہر بار اصلاح احوال کے لئے مثبت، موثر اور دیرپا اقدامات کی بجائے ٹرکالوجی لگاتے ہیں اور لوٹ مار کر کے چلے چاتے ہیں۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی اور لگا، ہٹا کی ان گروہوں کی مہمات بھی محض لوٹ کا مال تقسیم کرنے پر لڑائی کا شاخسانہ ہوتی ہیں اور عوام بے چارے نعرے لگائے تک ہی محدود رہتے ہیں۔
ہمارے عوام کی معصومیت، سادہ مزاجی اور صبر و رضا کی عادت اور حاکم طبقات کی چالاکی، عیاری اور موقع پرستی کی انتہا کے باعث اس بات کی بہت کم توقع ہے کہ ہمارا نظام کبھی مہذب معاشروں کے انداز میں فعال ہو سکے گا یا طبقہ اشرافیہ نظام کو بہتر بنانے کے لئے کام کرے گا، کیونکہ یہ طبقہ اتنا مضبوط ہے کہ انتخابی نظام اس پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ حکومت میں آ کر ملک میں شفاف اور منصفانہ نظام کے نفاذ کے لئے اقدامات کی بجائے یہ طبقہ ہر بار انتخابی نظام سے حاصل ہونے والے مواقع کا بڑا حصہ صرف اپنی اولادوں اور اپنے طبقے کی مضبوطی کے لئے لے اڑتا ہے۔ ایک قباحت جو پاکستان کے عام طبقات کی روش میں شامل ہے وہ یہ ہے کہ عام طبقات میں سے ایک معقول تعداد ان کی معاونت میں مشغول ہے۔ وہ یہ سوچ کر اس لٹیرے اشرافیہ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے کہ ہم انہیں شکست تو نہیں دے سکتے لہٰذا کم از کم ان میں شامل ہونے کی کوشش تو کرتے رہیں۔ ان کی کم از کم توقع یہ ہوتی ہے کہ زیادہ نہیں تو کچھ فوائد ان کی گود میں بھی آ گریں گے۔ ٹھیک ہے کہ ایسا کرنے والے چند عناصر خود یا ان کے خاندان آج اسمبلیوں میں بھی موجود ہیں مگر یاد رہے کہ یہ اپنے عام طبقے سے غداری ہے جس کی وجہ سے آج ہماری اکثریت اقلیت کی غلامی پر مجبور ہے۔ اسی غلامی کا نتیجہ ہے کہ معاشرے کی ثقافتی، سماجی اور سیاسی اقدار، معاشی وسائل کو پھیلائو دینے کی گنجائش اور حکمرانی کرنے والے ادارے ان مسائل کو حل کرنے کی سکت نہیں رکھتے جو مسائل بڑھ کر آج بحرانوں کی صورت اختیار کر گئے اور ملک کی معاشی سلامتی کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ سٹیک ہولڈرز کو اب مصالحت کے لئے اپنا اہم اور تاریخی کردار نبھانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب خطے کے معاملات کا سوال انتہائی اہمیت حاصل کر چکا ہے اور اندرونی طور پر غیر مستحکم سیاسی ماحول جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ غریب کی مشکلات اور امیر کے شاہانہ انداز میں بڑھتا فرق معاشرے میں تقسیم کو مزید بڑھا رہا ہے جس سے سماجی انتشار پیدا ہو رہا ہے۔
ماضی کے جن سافٹ آپشنز مثلآ رعایتی امداد، بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر، ناگہانی ایونٹس جیسے سرد جنگ، افغان جنگ، نائن الیون وغیرہ سے حاصل ہونے والے فوائد بھی اب ناپید ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ملک و قوم کا خون چوسنے کی عادی اشرافیہ اب بھی آزمائش میں مبتلا ریاست اور خستہ ترین سیاسی و معاشی ڈھانچے سے تیل نکالنے اور محض اپنی ٹینکی میں بھرنے میں مصروف ہے حالانکہ وہ بخوبی جانتی ہے کہ اب اگر ملک و قوم کو سنوارا نہ گیا تو مستقبل میں اس طرح کے مفادات اس قدر آسانی اور کثرت سے دستیاب نہیں ہوں گے۔ یہ تمام تر صورت حال کم از کم نظریاتی طور پر تو یہ ڈھول پیٹ رہی ہے کہ اپنے ذاتی و گروہی مفادات کے لئے سرگرم اشرافیہ کو ہٹانے کا یہ آخری موقع ہے کیونکہ یہ طبقہ کسی ایسے منصفانہ اور زیادہ بہتر سماجی نظام کا خواہشمند نہیں جہاں نچلے طبقے کے لوگ بھی نظام میں سے اپنا حصہ لے سکیں۔ اپنی پٹڑی سے ہٹ جانے والی معیشت کو ٹریک پر واپس لانے کے لئے ضروری ہے کہ بالا دست اشرافیہ تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی تکلیف کا بڑا حصہ خود برداشت کرے۔ اپنی تجوریوں کا منہ کھولے اور ہر سرمایہ دار اور حکومت کار اپنی دولت میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ ملکی بہتری کے لئے وقف کرے ورنہ بھوک کے مارے عوام جب سڑکوں پر نکل آئے تو ان کی تجوریاں بھی محفوظ نہیں رہیں گی اور یہ نوبت اب دور بھی نہیں عوام مہنگائی سے سخت پریشان اور مایوس ہو چکے ہیں۔







