Column

صرف پندرہ روپے میں قومی ادارے کی بقا

رفیع صحرائی

ایک زمانہ تھا کہ الیکٹرانک میڈیا میں صرف ریڈیو ہی جانا جاتا تھا۔ پاکستان میں 1964تک ریڈیو پاکستان ہی تازہ خبروں کا ذریعہ تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز 1964میں ہوا مگر اس کے بعد بھی بہت سالوں تک ریڈیو پاکستان کی اجارہ داری قائم رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت کم لوگ ٹیلی ویژن جیسی ’’ عیاشی‘‘ کے متحمل ہوتے تھے۔ دیہات میں ٹیلی ویژن 90کی دہائی میں پہنچنا شروع ہوا۔ بڑے قصبوں یا چھوٹے شہروں میں بھی صورتِ حال یہ تھی کہ 1990تک پانچ سے دس فیصد گھروں میں ٹیلی ویژن پہنچا تھا۔ اس دور میں ریڈیو بہت شوق سے سنا جاتا تھا۔ اس وقت صرف ریڈیو پاکستان ہی کا وجود تھا۔ جو سرکاری کنٹرول میں تھا۔ اس میں کام کرنے والے ملازمین پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے نام سے قائم کئے گئے نیم سرکاری ادارے کے تحت کام کرتے تھے۔ اب بھی یہی صورتِ حال ہے۔ ریڈیو پاکستان کا بھرپور اور جاندار کردار 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران سامنے آیا جب بھارت کے ریڈیو آکاش وانی کے من گھڑت اور جھوٹے پراپیگنڈے کا ریڈیو پاکستان نے موثر جواب دیا۔ یہاں تک کہ ریڈیو آکاش وانی، ’’ جھوٹوں کی نانی‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اس دور میں ریڈیو پاکستان سے بڑے بڑے نام جڑے ہوئے تھے۔ مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین اور عبداللطیف مسافر ( چودھری صاحب) بڑی خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہوں نے ریڈیو کا مورچہ سنبھالا ہوا تھا۔ وہ نہ صرف آکاش وانی ریڈیو کی ہر سازش اور افواہ کا توڑ کرتے تھے بلکہ تابڑ توڑ حملوں سے اسے پسپا بھی کر دیتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ میدانِ جنگ میں برسرِ پیکار اپنے فوجی بھائیوں کا حوصلہ بھی بڑھا رہے تھے۔ دوسری طرف صوفی تبسم، ڈاکٹر رشید انور، قتیل شفائی، ناصر کاظمی، قیوم نظر، ظہیر کاشمیری، حبیب جالب، محمود شام اور دوسرے بہت سے شعرا ء بہترین جنگی ترانے تخلیق کر رہے تھے، جنہیں مہدی حسن، سلیم رضا، عالم لوہار، ملکہ ترنم نورجہاں، مسعود رانا، شوکت علی اور دوسرے گلوکار ریکارڈ کروا رہے تھے۔ ریڈیو پاکستان سے جب یہ ترانے نشر ہوتے تو فوجی بھائیوں کے ساتھ ساتھ عوام کا جوش بھی بڑھا دیتے تھے۔ 1965کی جنگ کے دوران ادا کیا جانے والا ریڈیو پاکستان کا کردار ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ ریڈیو پاکستان سے متنوع نوعیت کے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک ہے جس کی رسائی پورے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ہے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا ذریعہ معلومات ہے۔ ریڈیو پاکستان ہر عمر اور ہر شعبہ زندگی سے منسلک افراد کے لیے پروگرام نشر کرتا ہے۔ جس میں بچوں سے لے کر 80سال کے بوڑھوں کے لیے، سائنس، مذہب، زراعت، ٹیکنالوجی، ادب، فلمی و غیر فلمی گیت، خبریں، حالاتِ حاضرہ پر تبصرے، موسم کا حال، طب، وغیرہ پر باقاعدگی سے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ ٹیپ ریکارڈر کا دور پاکستان میں 1970کے بعد آیا۔ مگر یہ 1980میں عام ہوئے۔ تب تک تفریحی پروگراموں پر ریڈیو پاکستان کی بلاشرکتِ غیرے اجارہ داری قائم رہی۔ ریڈیو پر 60کی دہائی سے 80کی دہائی تک آنے والی فلموں کے اشتہارات چلا کرتے اور فلمی گیت نشر ہوتے تھے۔ یعنی فلموں کی پروجیکشن اور مشہوری میں ریڈیو کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا تھا۔ ریڈیو پاکستان کو شروع ہی سے وقت کے بڑے لوگوں کی خدمات حاصل رہیں جن میں مذہبی سکالر، شاعر، ادیب اور جدید علوم کے ماہرین شامل تھے۔ اخلاق احمد دہلوی اور شمس الاسلام زبیری جیسے بلند پایہ لوگ ریڈیو میں مصلحِ زبان کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ ریڈیو پاکستان تربیتِ زبان کا بہت بڑا ذریعہ تھا۔ مائیک پر بیٹھنے سے پہلے انائونسرز، نیوز کاسٹرز اور مقررین کو زبان و بیان کی اصلاح کی بھٹی سے کندن بن کر نکلنا پڑتا تھا۔ یہی معاملہ پی ٹی وی پر بھی تھا۔ آج کل پرائیویٹ چینلز کی بھرمار اور نان پروفیشنلز کی دراندازی نے زبان و بیان کا معیار بالکل ہی گرا دیا ہے۔ اینکرز اور نیوز ریڈرز کا تلفظ درست ہوتا ہے نہ ادائیگی۔ ہر جگہ محض گلیمر اور شور شرابے کے ذریعے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ خبر کی صحت پر توجہ ہے نہ تصدیق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ سنجیدگی مفقود، ہلڑ بازی زیادہ ہے۔ ایسے میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کا کردار قابلِ تحسین ہے کہ وہ اپنی قائم کردہ روایات سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ادارے معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ قومی اور ملی روایات کی پاسداری کرتے ہیں۔ آپ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے پروگرامز پورے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ اس وقت اردو اور انگریزی کے علاوہ پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو اور براہوی سمیت 23علاقائی زبانوں میں ریڈیو پر پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اردو اور علاقائی زبانوں کے پروگراموں کے ذریعے ریڈیو پاکستان ملک کے تمام خِطوں میں بسنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے ساتھ ساتھ ان کے رسوم و رواج اور ادب و ثقافت کو بھی ایک دوسرے سے متعارف کروانے کا فریضہ انجام دیتے ہوئے یک جہتی کے جذبات کو فروغ دے رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کی عظیم خدمات کے باوجود گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے ہر حکومت نے اسے نظر انداز کیا ہے۔ اسے مطلوبہ فنڈز نہیں دئیے جا رہے۔ اس سے جڑے ملازمین اور فنکاروں کا حوصلہ و ہمت ہے کہ نامساعد حالات میں بھی انہوں نے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ بہترین اور معیاری کام آج بھی ریڈیو پاکستان کی پہچان ہے مگر بدقسمتی سے اس کے مستقل ملازمین کو شدید مہنگائی کے اس دور میں دو دو ماہ تک تنخواہوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ فنکاروں کو وقت پر معاوضے نہیں ملتے۔ عرصہ پہلے ریڈیو کی لائسنس فیس ختم کر کے اسے آمدنی کے ایک بڑے ذریعے سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ریڈیو پاکستان کی بحالی اور بقا کے لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صارفین سے ہر ماہ بجلی کے بل میں 15روپے ریڈیو لائسنس فیس کی مد میں وصول کئے جائیں گے۔ اس فیصلے کے بعد ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ریڈیو ہمارے دادا نے مفت سنا تھا اب اس کی فیس ہم کیوں ادا کریں؟۔ ان بھولے لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ ان کے دادا ریڈیو سننے کے لیے باقاعدہ لائسنس بنوایا کرتے تھے جس کی فیس 25روپے سالانہ ہوتی تھی۔ یہ قریباً دو روپے ماہانہ بنتے ہیں۔ روپے کی موجودہ قدر کے حساب سے آج یہ فیس 300روپے ماہانہ بنتی ہے۔ دیکھا جائے تو 15روپے انتہائی معمولی رقم ہے۔ آج ایک روٹی کی قیمت 25سے 30روپے ہے۔ چائے کا ایک کپ 60سے 100روپے میں ملتا ہے مگر یہی 15روپے جب ہر بجلی کا صارف دے گا تو وہ اتنی بڑی رقم بن جائے گی جو ایک ڈوبتے ہوئے قومی ادارے کو اپنے پائوں پر کھڑا کر دے گی۔ یہ معمولی رقم ریڈیو کے ملازمین اور فنکاروں کے بُجھتے چولہے جلانے میں معاون ثابت ہو گی۔ چیریٹی کے لحاظ سے ہم پاکستانی دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہیں۔ مہینے بعد آدھی روٹی کسی کو کھلا دینا کوئی مشکل یا ناقابلِ برداشت کام نہیں ہونا چاہیے۔ آئیے یہ 15روپے بوجھ سمجھ کر نہیں، بلکہ خوش اسلوبی سے قومی فریضہ سمجھ کر ادا کریں۔ اگر ایک عظیم ادارے کی بقا میں حصہ لینے کے جذبے سے سرشار ہو کر یہ تھوڑی سی رقم ادا کریں گے تو یقین کیجیے ہمیں ذہنی سکون اور قلبی سرور حاصل ہو گا۔

جواب دیں

Back to top button