خواتین ووٹرز کی بڑی تعداد اور آنے والے عام انتخابات

ھدی علی گوہر
دنیا کی اس وقت کل آبادی 8بلین سے تجاوز کر چکی ہے جس میں 50.5%فیصد مرد جبکہ 49.5%فیصد خواتین شامل ہیں۔ ان اعداد وشمار سے یہ واضح ہے کہ دنیا میں خواتین تقریباًنصف تعداد میں موجود ہیں جبکہ پاکستان میں بھی حالیہ مردم شماری کے مطابق کل آبادی میں 49.6فیصد تعداد خواتین کی ہے ۔ انسان ترقی کی مختلف منازل طے کرتا ہوا خلاء کی وسعتوں تک پہنچ چکا مگر عور ت کے وجود کو تسلیم کرنے کے باوجود اُس کی صلاحیتوں کا ادراک اور اس کو وہ مقام جو اُس کا حق ہے ، دینے سے آج بھی گریزاں ہے۔ اگر ہم عالمی سطح پر دیکھیں تو پاکستان نے 1996میں (Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination Against Women) CEDAW کے عالمی معاہدے پر دستخط کئے جس کے مطابق پاکستان خواتین کی، جینڈر کی بنیاد پر تفریق کو ختم کرنے اور قومی دھارے میں اِ ن کی شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے موثر اقدامات کرنے کا پابند ہے۔ اِ س معاہدے کے چند اہم نکات میںسے ایک یہ بھی ہے کہ خواتین کو سیاسی و جمہوری عمل میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے ۔ علاوہ ازیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بھی تمام شہریوں کو بلاتفریق صنف، سیاسی و جمہوری عمل میں شمولیت کا حق دیتا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017میں بھی خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت کو یقینی بنانے کے حوالے سے متعدد دفعات موجود ہیں۔
یہاں اگر خواتین کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے لگیں گے تو تحریر بہت طویل ہوجائے گی لیکن تمام صاحب شعور اِ س بات سے اِتفاق کریں گے کہ اِن مسائل کا حل خواتین کی انتخابی اور جمہوری عمل میں شمولیت سے مشروط ہے۔ پاکستان میں خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت کیلئے الیکشن کمیشن مختلف اقدامات لے رہاہے ۔ انتخابات میں خواتین دو طرح سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک بطور ووٹر اپنا حق ِ رائے دہی آزادانہ طور پر استعمال کر کے اور دوسرا بطور انتخابی امیدوار جمہوری عمل میں شمولیت اختیار کر کے۔
اگر ہم پاکستان کے انتخابی ماحول کی بات کریں تو یہاں خواتین کو بطور انتخابی امیدوار مردوں کے مقابلے میں بہت کم مواقع میسر ہیں۔ مخصوص نشستوں پر موجود خواتین کا کوئی حلقہ نہ ہونے کے باعث اُن کی وقعت کم ہے اور دائرہ کار بہت محدود ہے۔ علاوہ ازیں مختلف معاشرتی و معاشی رکاوٹوں کے باعث خواتین کیلئے جنرل نشست پر الیکشن لڑنا جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی میں 342اراکین میں سے 69خواتین اراکین ہیں اِن 69اراکین میں سے 60مخصوص نشستوں پر نامزد ہوئیں۔ ایک خاتون اقلیتی نشست پر جبکہ 8خواتین براہ راست جنرل نشستوں پر انتخاب میں حصہ لے کر منتخب ہوئیں۔ پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ خواتین مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود سیاست یا انتخابات میں حصہ لینا آج بھی خواتین کے لئے موزوں نہیں سمجھا جاتا۔
حالانکہ اگر دیکھا جائے تو جب تک ملک کی 50فیصد آبادی کی نمائندگی موزوں اور موثر طریقے سے ایوان میں نہیں ہوگی تب تک اُن کے مسائل کا ادراک یا ازالہ ممکن نہیں ۔ اِ س مقصد کیلئے الیکشن کمیشن تو مختلف اقدامات کر ہی رہا ہے، تاہم خواتین کو بھی حوصلے اور ہمت سے سیاسی و جمہوری سرگرمیوں میں حصہ لے کر فیصلہ سازی میں موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
خواتین انتخابی امیدواران کو سب سے پہلے تو پدرانہ معاشرے کا سامنا ہوتا ہے جہاں انہیں سیاسی جماعتوں کی طرف سے ٹکٹ جاری نہیں کیا جاتا ۔ علاوہ ازیں آزادانہ طور پر انتخاب میں حصہ لینے کیلئے معاشی وسائل اِ س قدر موجود نہیں ہوتے کہ وہ اپنی انتخابی مہم مردوں کے بالمقابل چلا سکیں۔ اس مسئلے کے حل کیلئے انتخابی مہم کے اخراجات کی تو حد مقرر کی گئی ہے مگر خواتین امیدواروں کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی انتخابی مہم موثر طریقے سے چلا سکیں۔ الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن206کے تحت سیاسی جماعتوں کے لئے لازم ہے کہ وہ جنرل نشستوں پر جاری پارٹی ٹکٹوں میں سے کم از کم 5فیصد ٹکٹیں خواتین کو دیں۔ انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن تمام امیدواران کی مہم ، تقاریر اور دیگر سرگرمیوں کو مانیٹر کرتا ہے تا کہ کسی خاتون امیدوار کی ذاتیات کو نشانہ نہ بنایا جائے اور خلاف ورزی پر قانون کے مطابق سخت ایکشن لیا جائے ۔ تاکہ خواتین کی انتخابی عمل میں بطور امیدوار حوصلہ افزائی اور شمولیت کو مزید موثر بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں مزید اقدامات بھی الیکشن کمیشن کے زیر غور ہیں جن میں الیکشن مہم کی فنانسنگ کی جانچ پڑتال مزید بہتر اور معاشرے میں اسکی آگاہی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
سیاسی عمل میں شمولیت کیلئے پہلی سیڑھی ووٹ کا اندراج ہے، جس کے لئے نادرا کا شناختی کارڈ موجود ہونا لازمی ہے۔ الیکشن کمیشن کی انتخابی فہرست کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں 12کروڑ 59لاکھ کے قریب رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ جن میں تقریبا ً6کروڑ 80لاکھ مرد اور 5کروڑ 79لاکھ خواتین شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2013ء میں ووٹر لسٹوں میں مرد اور خواتین کا صنفی فرق تقریبا ً 12فیصد تھا ۔ الیکشن کمیشن کے خصوصی اقدامات کے بعد حالیہ فہرستوں میں یہ فرق کم ہو کر 8فیصد رہ گیا ہے ۔ اِن اقدامات میں الیکشن کمیشن کے وہ اقدامات ہیں جو نادرا کے اشتراک سے خواتین کے شناختی کارڈ کے اجراء کو یقینی بنانا ہے۔ جس کے تحت سول سوسائٹی آرگنائیزیشنز کے تعاون سے ایسے علاقوں کی نشاندہی کی گئی جہاں خواتین کے شناختی کارڈ نہیں بنے تھے ، وہاں الیکشن کمیشن کے اقدامات کی وجہ سے نادرا کی موبائل رجسٹریشن وین بھجوائی گئیں تاکہ ایسی خواتین جن کے شناختی کارڈ نہیں ہیں اُن کے شناختی کارڈ کے اجراء اور ووٹ کے اندراج کو یقینی بنایا جائے۔ ووٹ رجسٹریشن کے علاوہ الیکشن کمیشن نے خواتین کی ووٹ ڈالنے کی شرح کو بھی بہتر بنانے کیلئے مختلف اقدامات کئے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 9کے تحت کسی بھی حلقہ یا پولنگ سٹیشن پر اگر خواتین کی ووٹ ڈالنے کی شرح 10فیصد سی کم ہوگی تو الیکشن کمیشن اُس حلقے یا پولنگ سٹیشن کے الیکشن کو کالعدم قرار دینے کا مجاز ہوگا۔ اِ س سیکشن کے نفاذ کے بعد مختلف ضمنی و لوکل گورنمنٹ انتخابات کے دوران خواتین کے ووٹر ٹرن آئوٹ میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن پولنگ سٹاف کو خصوصی ہدایات جاری کرتا ہے کہ بزرگ ، بیمار اور حاملہ خواتین کا ووٹ ترجیہی بنیادوں پرڈلوایا جائے تاکہ خواتین آسانی اور سہولت سے اپنا حق ِرائے دہی استعمال کر سکیں ۔
خواتین کے لئے الیکشن کمیشن از خود اور سول سوسائٹی کے تعاون سے ووٹر آگاہی مہم کا انعقاد کرتا ہے ۔ نوجوان طالبات کیلئے ملک بھر کی جامعات و کالجوں میں ووٹر آگاہی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ نومبر 2021سے مئی 2023 تک ملک بھر کے مختلف سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء و طالبات کے ساتھ 715تعلیمی ورکشاپس کا کامیابی سے انعقاد کیا جاچکا ہے۔ یہ ورکشاپس عام انتخابات تک تمام صوبوں میں جاری رہیں گی۔ الیکشن کمیشن خواتین کیلئے ٹی وی مارننگ شو، اشتہارات اور ریڈیو پیغامات کے ذریعے الیکشن کے عمل سے متعلق آگاہی فراہم کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن سوشل میڈیا کو بروئے کار لاتے ہوئے واٹس ایپ، فیس بُک ، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر بھی ووٹر اور عوام کی سہولت کیلئے آگاہی ویڈیوز اور دیگر تحریری مواد مہیا کرتا ہے۔ خواتین کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کیلئے الیکشن کمیشن نے صوبائی سطح پر جینڈر اینڈ ڈس ایبلیٹی گروپ جبکہ ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ ووٹر ایجوکیشن کمیٹیاں تشکیل دی ہوئی ہیں جن میں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اقدامات اِ س بات کی گواہی دیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ انتخابات میں صنفی برابری کو یقینی بنانے کیلئے مرد و خواتین کے لئے ایک جیسے اقدامات ضروری ہیں اور خواتین کو ایک قدم مزید بڑھ کر سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ خواتین کو قومی دھارے میں موثر کردار نبھانے کا موقع فراہم کیا جاسکے اور وہ فیصلہ سازی کے عمل میں اپنا غیر معمولی کردار ادا کریں۔ آنے والے عام انتخابات میں خواتین کا ووٹ بڑی اہمیت کا حامل ہے تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ خواتین کے ووٹ کو قطعاًنظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن کے علاوہ سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی بھی اس سلسلے میں آگاہی مہم چلائیں تا کہ خواتین اپنے ووٹ کے اندراج کو یقینی بنائیں۔ انتخابی عمل میں بلاخوف و خطر حصہ لیں اور پولنگ کے دن پولنگ سٹیشنز پر ووٹ کاسٹ کرنے آئیں اور یُوں قانون و فیصلہ سازی میں اپنی شرکت یقینی بنائیں ۔







