Column

نئے الیکٹرک شاک

یاور عباس

آئی ایم ایف سے 3ارب ڈالرز کے سٹینڈ بائی معاہدے کے بعد وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے قوم کو بتایا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے اپنے گردشی قرضہ جات کی مجبوری کی وجہ سے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت میں اضافہ کرنا مجبوری ہے ۔ یقینا یہ خبر مہنگائی سے پسے ہوئے عوام کے لیے کسی الیکٹرک شاک سے کم نہیں۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کی وجہ سے ملک میں ایک سال سے زیر بحث خبر کہ خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے اور یہاں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہونے کا خدشہ ہے دم توڑ گئی ہے اور حکومت نے اس معاہدے پر بھرپور جشن منایا اور اس معاہدہ کو اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیا اور محنت میں آرمی چیف سید عاصم منیر کی کاوشوں کو بھی شامل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ قرضے کے بدلے کیا کیا معاہدہ جات ہوئے اس کے مندرجات سے چند بااختیار لوگوں کے علاوہ قوم کے نمائندوں کو بھی شاید علم نہیں ہے پارلیمنٹ میں موجود عوامی نمائندے بھی سپیکر صاحب سے سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ خدارا ہمیں بتایا جائے کہ کن شرائط پر قرضہ لیا گیا ہے مگر حکومت اتنی مجبور اور بے بس ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے اور ملکی موجودہ معاشی صورتحال کی ذمہ داری ان کے آئی ایم ایف معاہدہ کی کڑی شرائط کو قرار دیتے ہیں مگر ان کے کئے ہوئے معاہدے بھی عوام کے سامنے پیش نہیں کر سکتے ۔ موجودہ حکومت کی جانب سے ملک کے مختلف ایئر پورٹس، موٹر وے گروی رکھنے کی خبریں گردش کرنے لگیں تو سینئر اینکر پرسن حامد میر نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے جب سوال کیا کہ اسلام آباد ایئر پورٹ لیز پر دے دیا گیا ہے تو انہوںنے جواب دیا کہ نہیں گروی رکھا ہے۔ اسی طرح معاہدہ کی ایک اور شرط عوام کے سامنے آگئی ہے، وہ ہے بجلی مہنگی کرنا جو شاید ابھی بھی ادھوری ہو اور اس کی قیمت پتہ نہیں 9ماہ میں کتنی بار بڑھانی پڑے۔ آئی ایم ایف کے قرض ملنے سے ملک تو ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے مگر عوام ڈیفالٹ کر گئے ہیں۔
معاشی بحالی کا واحد حل صرف بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنا نہیں ہے۔ اس عمل سے صرف غریب متاثر ہو رہاہے بلکہ بجلی کے بل کی ادائیگی کی سکت نہ رکھنے والے خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں ۔ معیشت کی بحالی کے لیے ایک مکمل روڈ میپ تشکیل دینے کی ضرورت ہے، جس میں اشرافیہ کی لوٹ مار بند کی جائے، شاہ خرچیاں بند کر کے سادگی اختیار کی جائے، دولت کی مساویانہ تقسیم کا فارمولہ طے کیا جائے، غریب عوام کا خون چوسنے کی بجائے اسے ریلیف دینے سے ترقی کا پہیہ چلے گا۔ تباہ حال ماشی صورتحال میں جہاں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنے کا عزم لے کر اقتدار میں آنے والی 14جماعتوں نے تجربہ کار لوگوں کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا مگر صرف ڈیڑھ سال میں مہنگائی تین گنا بڑھ گئی، مزدور طبقہ بے چارہ تو احتجاج کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتا وہ دیہاڑی لگائے یا سڑکوں پر آکر احتجاج کرے ، ملازم طبقہ بھی احتجاج پر مجبور ہے اور 5دن تک لاہور میں سول سیکرٹریٹ کے باہر دھرنا دئیے رکھا ، حکومت نے بجلی مہنگی کر کے جتنی رقم اکٹھی کرنی ہے اس سے زیادہ تو بجلی کے فری یونٹ ختم کر کے اور بجلی کی چوری روک کر کی جاسکتی ہے۔ لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے افسران کو بجلی کے فری یونٹ اور صرف1000روپے دیہاڑی لگانے والے سے اس فری بجلی کے یونٹس کا بل قیمتوں میں اضافہ کرکے وصول کرنے سے معیشت بحال نہیں ہوسکتی۔
بجلی کی قیمتیں آئے روز بڑھا بڑھا کر عوام کی پہنچ سے دور کی جارہی ہے ۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ لوگوں کے پاس پنکھے ہوں تو بھی وہ بند کیے رکھنے پر مجبور ہیں کہ بل زیادہ نہ آجائے ، لوگ واشنگ مشینیں چھوڑ کر ہاتھ سے کپڑے دھونے پر مجبور ہورہے ہیں، یہ ترقی کا راستہ نہیں بلکہ عوام کو پتھر کے دور میں دھکیلا جارہاہے۔ جون 2019ء کے بل میں 184یونٹس کا بل 1718روپے یعنی ٹیکس ملا کر فی یونٹ 9روپے بنتا تھا ، فروری 2021ء میں 108یونٹس کا بل 865روپے یعنی فی یونٹ 8روپے ، فروری 2021ء میں 203یونٹس کا بل 2338روپے یعنی فی یونٹ 11.50روپے، نومبر2022ء میں 137یونٹس کا بل 3685یعنی فی یونٹ 26روپے ہوگیا اور اپریل2023ء میں 303یونٹس کا بل 12221یعنی فی یونٹ 40روپے کا ہوگیا اور اب قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ٹیکسوں کی مد میں بھی اضافہ ہوگا اور یوں بجلی کا ایک یونٹ تقریباً عوام کو 50روپے میں ملے گا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی چند دن کی حکومت میں حمزہ شہباز نے 100یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو مفت دینے کا اعلان کیا مگر وفاق میں ان کے والد محترم کی حکومت ہونے کے باوجود بجلی کی یونٹ بھی مفت دینا تو دور کی بات سستی کرنے کی بجائے مہنگی کی جارہی ہے ۔
پاکستان شاید دنیا میں واحد ملک ہوگا جہاں بجلی اور گیس کے ٹیرف مقرر ہیں کہ اگر آپ بجلی زیادہ استعمال کرتے ہیں تو فی یونٹ قیمت زیادہ دینا پڑے گی، حالانکہ ایسا کہیں بھی نہیں کہ بازار سے ایک کلو چینی 100روپے کے حساب سے خریدیں اور اگر آپ کو 50کلو چاہیے تو دکاندار کہیں اب 110روپے فی کلو قیمت ہوگی، یہ اصول صرف بجلی اور گیس کے بلوں میں ہی ہے اور پھر ایک جیسی یونٹس کے ریٹ ایک جیسے نہیں، ایک بل میں 70یونٹ کا بل کچھ اور تو دوسرے بل میں 70یونٹس کا بل کچھ اور ہوگا، جب رابطہ کریں تو کہا جاتا ہے کہ اگر 6ماہ کے دوران ایک ماہ میں بھی یونٹ 100سے زائد ہوجائے تو ٹیرف 100والا ہی لگے گا، یہ بجلی فروخت کرنے اور ٹیکس وصول کرنے کا کوئی اصول نہیں بلکہ اسے جگا ٹیکس ہی کہا جاسکتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں کے علاوہ 11قسم کے گورنمنٹ ٹیکسوں میں ایکسٹرا ٹیکس اور مزید ٹیکس کی وضاحت کوئی کر سکتا ہے نہ ہی دنیا میں ایسا کوئی ٹیکس ہوگا۔ خدارا فی یونٹ کا ریٹ مقرر کر دیں کہ کوئی جتنی مرضی استعمال کرے ایک ہی ٹیرف لگے گا۔

جواب دیں

Back to top button