درس کربلا

درس کربلا
یاور عباس
اسلامی تاریخ میں واقعہ کربلا ایک عظیم سانحہ ہے جبکہ تاریخ عالم میں حق و باطل کا یہ سب سے بڑا معرکہ سمجھا جاتا ہے ، جہاں ایک طرف ریاست پوری طاقت کے ساتھ کھڑی تھی جبکہ دوسری طرف نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے چند ساتھیوں اور اہل خانہ کے ہمراہ میدان کربلا میں ایک نظریہ کے ساتھ کھڑے تھے اور وہ نظریہ سیاسی یا ذاتی مفاد کا نہیں بلکہ دین اسلام کی سر بلندی کا نظریہ تھا یہ معاملہ صرف بیعت کا نہیں تھا بلکہ جب اقتدار کی طاقت کے نشہ میں یزید نے اسلامی شعار کا مذاق اُڑایا اور حدود اللہ میں تبدیلیاں کرنے کی ناپاک جسارت کی ، حرام کو حلال قرار دینے کی کوشش کی تو اس وقت نواسہ رسولؐ، گوشہ جگر بتول علی ؓ کے لخت جگر امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ نے قیام فرمایا اور دین اسلام کو بچانے کے لیے اپنے معصوم بچوں کو بھی میدان میں لے آئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا اور دین اسلام کو ہمیشہ کے لیے سربلند کر دیا۔ بہت سارے لوگ اس واقعہ کو حق و باطل کی بجائے دو شہزادوں کی جنگ قرار دیتے ہیں اور اعتراض اُٹھاتے ہیں کہ جب تمام اصحاب رسول ٔ نے بیعت کر لی تھی تو پھر امام حسینؓ کو بھی اکثریت رائے کا فیصلہ مانتے ہوئے بیعت کر لینی چاہیے تھی ، مولانا مودودی ؒنے اس بات کا خوبصورت جواب دیا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ جب سب نے بیعت کرلی تو امام حسینؓ نے کیوں نہیں کی بلکہ سوال یہ ہے کہ جب امام حسینؓ نے بیعت نہیں کی تھی تو پھر سب نے کیوں کرلی۔ امام حسینؓ کی شہادت نے وہ تاریخی انقلاب برپا کیا کہ تخت یزید بہت جلد زمین بوس ہو گیا۔ واقعہ کربلا سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جنگ کسی پر غلبہ پالینے کا نام نہیں بلکہ جنگ نظریوں کی ہوتی ہے میدان کربلا میں اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ شہید ہونے والے کے نام قیامت تک زندہ و جاوید ہیں جبکہ لاکھوں کے لشکر کے ساتھ خانوادہ رسول ٔ کو شہید کرنے کے بعد سر مبارک نیزوں کی نوکوں پر شہر شہر پھرانے والوں کا آج کوئی نام لیوا نہیں ہے اور تاریخ انہیں ظالم، فاسق ، فاجر کے طور پر جانتی ہے جبکہ دنیا کے ہر کونے اور ہر گلی کوچے میں آج بھی نام حسین ؓ زندہ ہے ۔ امام حسینؓ نے اپنی جان دین اسلام کے لیے قربان کر کے قیامت تک کے لوگوں کو پیغام دیا کہ حکومت اور طاقت کوئی بڑی چیز نہیں ہے بلکہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہی سب سے بڑا جہاد اور اصل فتح ہے ۔
اک پل کی تھی بس حکومت کی یزید کی
صدیاں حسینؓ کی زمانہ حسین ؓ کا
واقعہ کربلا نے تاریخ اسلام میں وہ تاریخی اہمیت حاصل کی ہے کہ قیامت تک اس مہینہ کو شہداء کربلا کی یاد میں منایا جاتا رہے گا ، امام عالی مقام نے دنیا پر ثابت کیا کہ اقتدار کوئی بڑی طاقت نہیں ، زندہ ضمیر لوگ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے بھی انجام کی پروا کیے بغیر ڈٹ جاتے ہیں ۔ واقعہ کربلا بہت سارے لوگوں کے چہروں سے نقاب بھی اتارے کہ جو لوگ اقتدار اور مال دنیا کی خاطر اہلبیت کے دشمن ہوگئے تھے اور آل رسولؐ کی جانوں کے دشمن ہوگئے تھے اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو وہ قیامت تک لوگوں کی نظروں میں معتبر ٹھہرتے اور لوگ انہیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ، واقعہ کربلا ہی ہمیں حریت کا درس دیتا ہے ، لشکر یزید میں ایک ہی مرد تھا جس نے آخری وقت میں سب کچھ دیکھتے ہوئے اپنا راستہ تبدیل کیا ، سپہ سالاری چھوڑی اور جام شہادت نوش کرنے کے لیے امام حسین ؓ کے لشکر میں شامل ہوگیا اس کا شخص کا نام حر تھا حضرت حر کا یہ جرات مندانہ قدم ایسا تھا کہ اب قیامت تک کے لوگ اگر جرات و بہادری سے ظالم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں تو وہ لوگ حریت پسند کہلاتے ہیں ۔ دنیا میں آج بھی ہمیں کشمیر، فلسطین، چیچنیا، روہنگیا اور دیگر مسلم ریاستیں جن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور وہاں کے لوگ جو ظلم و ستم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں وہ حریت پسند کہلاتے ہیں ۔ امام حسین ؓ نے اپنی جان قربان کر کے قیامت تک کے مسلمانوں کا پیغام دیا کہ حق کی خاطر ڈٹ جائو چاہے تمہیں جان ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔
محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتے ہی ذکر امام حسین کے لیے محافل اور مجالس کا اہتمام شروع ہوجاتا ہے ہر کوئی اپنے اپنے طریقہ سے خراج تحسین پیش کرتا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ اس مہینہ میں فرقہ واریت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے، مسلکی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے ، عالم کفر کا مقابلہ کرنے کے لیے عالم اسلام کو یکجہتی کی ضرورت ہے ، گروہی اور مسلکی اختلافات سے باہر نکل کر دین کی خاطر متحد ہونا چاہیے۔ پاکستان کے حالات بالخصوص جس نوبت پر پہنچ چکے ہیں یہاں تو نقص امن کی رتی بھر گنجائش نہیں ہے اور تمام مسالک کے علماء اکرام کو چاہیے کہ فرقہ وارانہ بیانات سے گریز کرتے ہوئے امت کو جوڑیں ، پیغام کربلا سے سبق سیکھنا چاہیے کہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیں اور باطل کے سامنے ڈٹ جائیں، دنیا میں آج بھی جو طاقتور اور ظالم ہوتا ہے وہ یزید کا نمائندہ کا ہوتا ہے اور اس کے خلاف سب کو متحد ہوکر کھڑے ہوجانا چاہیے بلکہ بدقسمتی ہے یہ لوگ مردہ یزید کو گالیاں نکال کر حسینی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور زندہ یزیدوں کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات نہیں کرتے اور کچھ تو ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ واقعہ کربلا قیامت تک کے لیے آنے والی حکومتوں کے لیے بھی پیغام ہے کہ طاقت اور اختیارات کے نشے میں دھت ہوکر کبھی مظلوم اور بے گناہ پر ظلم و تشدد نہ کیا جائے، فسطائیت کا راستہ یزیدیت کا راستہ ہے، اگر آج بھی اسلامی دنیا اسوۂ رسولؐ کو اپنا اصول بنائے اور معرکہ کربلا سے سبق سیکھتے ہوئے دین اسلام کی سر بلندی کے لیے کام کریں ، حسینی فکر کو عام کریں تو یقین جانیں دنیا میں امن کا انقلاب آسکتا ہے۔ واقعہ کربلا سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے ڈرنا نہیں چاہیے، حق بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دینی چاہیے ۔
یہ درس کربلا کا ہے
کہ خوب بس خدا کا ہے







