ColumnImtiaz Aasi

کارکردگی دیکھ کر ووٹ دیں

کارکردگی دیکھ کر ووٹ دیں

امتیاز عاصی
انتخابات بارے حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کب ہوں گے البتہ حکومت نے جانے کی تیاری کر لی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹویٹ میں قوم سے حکومت کی کارکردگی دیکھ کر الیکشن میں ووٹ دینے کی اپیل کی ہے۔ اس سے پہلے ہم عوام سے مسلم لیگ نون کو ووٹ دینے کی اپیل کریں۔ اتحادی جماعتوں کی کارکردگی پر طائرنہ نظر ڈالتے ہیں۔ شہباز حکومت جاتے جاتے ایک مرتبہ پھر غریب عوام کو مہنگائی کے شکنجے میں پھنسا کر الوداع ہورہی ہے۔ آئی ایف ایم کے ساتھ معاہدے میں جو شرائط ہیں عوام کی چیخیں نکلنے کے لئے کافی ہیں۔ پٹرول سو روپے سے دو سو پچاس اور جائیداد کی خریدوفروخت پر ٹیکس چار فیصد سے بڑھا کر اکیس فیصد ہوگیا۔ اقرار نامے والا اشٹام پیپر بارہ سو سے بڑھا کر تین ہزار روپے کا ہو گیا۔ بینکوں سے رقم نکلوانے پر ٹیکس چھ سو ساٹھ روپے دینا پڑے گا۔ گاڑیاں بنانے کے کارخانوں کی بندش اور ٹیکسائل انڈسٹری انہی کے دور کی کامیابی ہے۔ اپنے خلاف چلنے والے تمام مقدمات بند کرائے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اسی حکومت کا کارنامہ ہے۔ آخر میں زراعت اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار پر ٹیکس کا نفاذ اسی دور کی ایک اور بڑی کامیابی ہے۔ دیکھا جائے تو ترسیلات زر میں کمی موجودہ حکومت کی ایک کامیابی ہے ۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو درآمدات کھولنے کو کہا ہے جس سے آئی ایم ایف سے ملنے والے زیادہ تر ڈالر بیرون ملک چلے جائیں گے۔ ملک میں آج جو ترسیلات زر آ رہی ہیں اس کی بنیاد بھٹو نے رکھی۔ اسلامی کانفرنس کا انعقاد کرکے مشرق وسطی میں پاکستانیوں کو بھیجنے کا سہرا بھٹو کے سر ہے۔ نیوکلیر پروگرام کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے نہ منی لانڈرنگ کی اور نہ بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں انہی وجوہات کی بنا وہ پاکستانی عوام کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔ ملک کو متفقہ آئین دینے کا کارنامہ انہی کا ہے ورنہ آج کوئی جماعت کوئی کام متفقہ طور پر کرکے تو دکھائے۔ جس حکومت سے انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے ایسی حکومت سے عوام کیا توقعات ہو سکتی ہیں۔ درحقیقت مسلم لیگ نون کو انتخابات میں کامیابی کا یقین نہیں۔ نواز شریف کی آمد کا دور دور تک امکان نہیں۔ سیکرٹری جنرل پی ایم ایل نون نے ورکرز کو استقبال کی تیاریوں کی ہدایات جاری کی ہیں جو اس بات کی واضح علامت ہے مسلم لیگ کو اپنے لیڈر کے استقبال کے لئے مشکلات کا سامنا پڑ سکتا ہے ورنہ کوئی عوامی رہنما وطن واپس آئے تو ایک اعلان کافی ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹیں تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے استقبال کے لئے موجود تھا۔ حکومت کی آئینی مدت 11اگست کو ختم ہو رہی ہے چند روز قبل اسمبلیوں کی تحلیل کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ ضرور ہے اسمبلیوں کی تحلیل سے نگران حکومت کو ساٹھ کی بجائے نوے روز مل جائیں گے۔ ذولفقار علی بھٹو کے بعد ملکی سیاست میں وہ جوش و جذبہ نہیں رہا۔ جو حکومتیں آئیں ماسوائے لوٹ مار کے کوئی کام نہیں ہوا ۔ کوئی منصوبہ بنا بھی اس میں کک بیکس کی بدبو نے عوام کو مایوس کیا۔ ایوبی دور کے بعد کتنی حکومتیں آئیں کتنے ڈیم بنائے گئے بجلی کے کتنے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب کسی جماعت کے پاس نہیں۔ اب گرین پاکستان پراجیکٹ عسکری قیادت کا منصوبہ ہے۔ زراعت کو ترقی نہ دی گئی تو بشمول پیرا ملٹری فورسز بارہ تیرہ لاکھ فوج کو راشن کہاں سے ملے گا۔ عمران خان کو ایک کریڈٹ جاتا ہے اس نے کرپشن کرنے والے سیاست دانوں کو عوام کے سامنے ننگا کر دیا۔ چنانچہ انہی وجوہات کی بنا پی ڈی ایم کی جماعتوں کو آئندہ انتخابات میں کامیابی کی توقع نہیں ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے تحریک انصاف کے حصے بخرے کرنے یا عمران خان الیکشن میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں کرپشن میں ملوث سیاست دانوں بارے عوام کو باشعور کرکے خان نے عوام کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ بعض جماعتیں سی پیک منصوبے کا کریڈٹ لینے کی ناکام کوشش کرتی ہیں حالانکہ یہ منصوبہ چین کے تعاون سے عسکری قیادت کی سوچ کا عکاس ہے۔ تعجب ہے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے درمیان ابھی تک الیکشن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔ متحدہ نے نئی مردم شماری پر الیکشن کرانے کا کہہ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اس معاملے میں ڈانوں ڈول ہے۔ جے یو آئی تو وزارتوں کے مزے لے رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے بیٹے کے پاس ملک کی اہم ترین وزارت ہے۔ حکومت جانے کی دیر ہے بڑے بڑے اسکینڈل منظر عام پر آئیں گے۔ چند روز قبل ایک وفاقی وزیر نے ایک تبادلے کے لئے ایک سیکرٹری کو فون کیا تو سیکرٹری نے جواب دیا تبادلوں کا اختیار وزیر صاحب نے اپنے ہا تھ میں رکھا ہوا ہے جس کے بعد تبادلے کے خواہش مند ملازم نے وزیر موصوف کے بیٹے سے رابطہ کرکے مقررہ فیس ادا کرکے بعد اپنا تبادلہ کرا لیا۔ جس ملک کے وزیراعظم اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے میں تامل نہیں کرتے ایسے ملکوں کو ترقی سے کون روک سکتا ہے۔ انتخابات جب بھی ہوں ایک بات طے ہے عوام کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ عجیب تماشا ہے وزیراعظم قبل از وقت حکومت چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں ہو ا ہے۔ ہر روز مشاورت جاری ہے کی خبریں آرہی ہیں اللہ جانے انتخابات کے لئے مشاورت کے لئے کتنا وقت درکار ہے۔ لگتا ہے پرانی اور نئی مردم شماری کی آڑ میں انتخابات کو آگے لے جایا جائے گا جس کے پس پردہ محرکات میں تحریک انصاف کو کسی طریقہ سے الیکشن سے باہر کرنے کا منصوبہ ہے۔ عمران خان کے خلاف ہر روز نئے مقدمات اس امر کا غماز ہے حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے خائف ہیں۔ حکومت کو چاہیے تحریک انصاف کو عوام کے دلوں سے نکالنے کی کوئی سبیل سوچے ورنہ انتخابات میں شکست اتحادی جماعتوں کا مقدر ہوگی۔ پی ایم ایل نون اپنے قائد کی وطن واپس پر تکیہ کئے ہوئے ہے۔ ان کی واپسی سے عوام کے ذہنوں کو بدلا جا سکے گا۔ حالانکہ ان کے قائد کی مبینہ کرپشن نے عوام کی نظروں میں مسلم لیگ نون کو گرا دیا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہم عوام سے پی ایم ایل نون کو ووٹ دینے کا کیسے کہہ سکتے ہیں؟۔

جواب دیں

Back to top button