Columnمحمد مبشر انوار

بیرونی قرضے اور غیبی امداد

محمد مبشر انوار(ریاض)
پاکستان کی معاشی تاریخ، اس کے معرض وجود میں آتے ہی، نامساعد حالات کے باوجود اس قدر ناگفتہ بہ نہیںتھی، جتنی اس وقت ہے اور نہ ہی پاکستان کو ایسے سنگین معاشی مسائل کا سامنا تھا۔ گو کہ وسائل کم تھے لیکن اس کے باوجود ریاست پاکستان ان مسائل سے عہدہ برآء ہونے کے لئے سینہ تانے کھڑی تھی، اس کی ریاستی مشینری کے ساتھ ساتھ اس کے حکمران، آزادی کی قدروقیمت سے آگاہ اور اس کی حفاظت کے لئے بروئے کار تھے۔ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود بھی ملکی صنعت مسلسل ترقی کرتی نظر آتی ہے اور جی ڈی پی بھی قدرے بہتر دکھائی دیتا ہے ،ان حالات کے باوجود عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے قرض کے لئے ہاتھ پھیلا ہوا نظر نہیں آتا۔ البتہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث بیشتر اوقات پاکستان عالمی طاقت کا کندھا بنا نظر آتا ہے جو یقینی طور پر حالات کا تقاضہ رہا اور پاکستان کو مسلسل کسی طاقتور حریف کی ضرورت رہی ۔ تاہم ان مشکل حالات سے نبردآزما ہوتے ہوتے بتدریج بہتری کی جانب گامزن رہے، پاکستان میں پڑھائی جانے والی تاریخ کے مطابق، بھارت نے شب خون مارتے ہوئے 1965میں پاکستان پر جنگ مسلط کردی، جس میں پاک فوج نے اپنی جنگی مہارت کے واضح ثبوت دیتے ہوئے دشمن کے دانت ایسے کھٹے کئے کہ اس کی نسلیں یاد رکھتی لیکن بدقسمتی سے اس قرض کو بھارت نے فقط چھ سال کے قلیل ترین عرصہ میں سود سمیت یوں لوٹایا کہ مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کر دیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1971میں جنگ کے حالات ہم نے خود پیدا کئے کہ ستر کے انتخابات میں واضح برتری حاصل کرنے والے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس پر غداری کے مقدمات تک بنائے گئے، بنگالیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اور ان سے ہتک آمیز سلوک کے نتیجہ میں جو دوریاں پیدا ہوئیں، ان کو پروان بھارت نے یوں چڑھایا کہ بالآخر مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کر دیا۔ اس سانحہ تک بھی پاکستان کے معاشی حالات اتنے دگر گوں نہیں رہے لیکن اس کے بعد مغربی باکستان یا موجودہ پاکستان کے حکمرانوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے در پر جانا شروع کیا۔ آئی ایم ایف سے پہلا قرض، بھٹو دور میں لیا گیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ قرض لوٹا دیا گیا، جنرل ضیا دور میں قرضوں کے بجائے پاکستان کو امریکی پراکسی جنگ لڑنے کے عوض دل کھول کر امداد دی گئی، جس نے ہماری معاشی حیثیت کو قدرے مستحکم رکھا اور پاکستان براہ راست عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے آج کی طرح گڑگڑایا نہیں۔ اس دوران امریکہ بطور عالمی طاقت اپنی حیثیت مستحکم سے مستحکم کرتار ہا اور سوویت یونین کے ٹوٹنے پر اکلوتی عالمی طاقت بن کر ہر طرح کی اجارہ داری امریکہ کے حصہ میں رہی، اس حیثیت میں امریکی خواہش، کسی بھی دوسری عالمی طاقت کی طرح، دائم رہنے کی رہی ہے، آج بھی امریکہ اپنی اس حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے جتن کر رہا ہے۔
دوسری طرف سوویت یونین اپنے زخم چاٹ رہا تھا تو امریکہ نے دنیا پر اپنا قبضہ مکمل کرنے کے لئے افغانستان پر جارحیت کر دی، جس کا جواز 9؍11نے اسے فراہم کیا یا اس نے ازخود اس جواز کو گھڑا، اس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس آڑ میں افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ جس کی قیمت ایک طرف اسے یہاں ہونے والی شکست سے ادا کرنا پڑی تو دوسری طرف اس دورانئے میں چین ایک نئی معاشی طاقت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا، گو کہ امریکہ نے اپنے تئیں بہت سی کوششیں کی کہ چین کی ترقی کے سامنے بند باندھ سکے لیکن اس کی کوئی بھی چال کامیاب نہ ہو سکی۔ افغانستان پر لشکر کشی کا ایک امریکی مقصد یہ بھی تھا کہ چین کے سر پر بیٹھ کر اس کی گو شمالی کی جائے، جس میں بہرطور امریکہ کامیاب نہیں ہو سکا۔
بدقسمتی سے اس تمام عرصہ میں پاکستان کی داخلی سیاست مسلسل زوال پذیر رہی ہے اور غیر جمہوری طاقتوں نے میدان سیاست میں ایسی قیادت متعارف کروا دی ہے کہ جسے صرف ذاتی مفادات عزیز ہیں اور کسی بھی صورت پاکستانی مفادات کو مد نظر رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستان نے 1998میں ایٹمی دھماکے تو اس لئے کئے تھے کہ کسی طرح اقوام عالم میں اس کی حیثیت و مقام کا ازسرنو تعین ہو سکے اور اقوام عالم اس کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کریں لیکن ہوا اس کے برعکس، جس میں یقینی طور پر ہمارے عاقبت نااندیش حکمرانوں کی بے بصیرت قیادت کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات و ہوس زر رہی ہے۔ ایٹمی دھماکوں سے قبل پاکستان میں ڈالر کی قدر 48روپے تھی، جو چند ماہ میں 68تک جا پہنچی، اس دوران دیہاڑی بازوں نے اچھی خاصی دیہاڑی لگائی لیکن بعد ازاں دوست ممالک کی مدد اور بتدریج حالات نے پاکستان میں زیادہ بربادی نہیں دکھائی اور ڈالر کی قیمت قدرے مستحکم ہی رہی۔ اسی دوران امریکہ کو ایک بار پھر افغانستان میں پاکستان کی مدد درکار تھی لہذا ماضی کی طرح امریکہ نے پھر آنکھیں بند رکھی اور پاکستان میں معاشی معاملات قدرے بہتر رہے کہ اس دوران پاکستان کو ایک بار پھر ’’ فوجی خدمات ‘‘ کے عوض ڈالر نصیب رہے اور یوں ڈالر شتر بے مہار نہ ہوا۔ بعد ازاں سول حکومتوں نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں کہ الامان الحفیظ، ڈالر کو تو جیسے پر لگ چکے ہیں اور ڈالر کی اڑان کسی کے قابو نہیں آ رہی۔ ریاست تقریبا اپنے تمام تر وسائل کو عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے گروی رکھ چکی ہے یا وصول کردہ قرضہ جات کو ایسے ایسے منصوبوں میں لگا چکی ہے کہ جہاں سے کسی قسم کی آمدن موصول ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ ہر منصوبہ ہی خسارہ کا شکار نظر آتا ہے اور قرضوں کا حجم دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
موجودہ حالات میں یہ حقیقت بھی ہر آئے دن واضح ہوتی جا رہی ہے کہ امریکہ اپنی عالمی طاقت کی حیثیت مسلسل کھو رہا ہے اور چین انتہائی مستقل مزاجی سے دنیا بھر میں اپنے حلیف بنا رہا ہے۔ امریکی حلیفوں میں اب اتنا دم خم نظر نہیں آتا اور دنیا کے بیشتر ممالک امریکی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے چنگل میں پھنسے، اس سے بیزار دکھائی دیتے ہیں، اس لئے ان کی ترجیح چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں نظر آتی ہے۔ امریکہ اس صورتحال سے نہ صرف جزبز ہے بلکہ خاصہ چیں بہ جبیں نظر آتا ہے کہ چین کا بڑھتا ہو ا اثر و رسوخ دنیا بھر کی معیشت کو نگلنے کے لئے تیار ہے، اس پس منظر میں، دنیا ایک اور کروٹ لے رہی ہے کہ ڈالر عالمی تجارتی کرنسی کی حیثیت کھو رہا ہے اور بیشتر ممالک فی الوقت لوکل کرنسی میں تجارت کے معاہدے کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ چین اور اس کے حلیف مسلسل ڈالر کے متوازی متبادل کرنسی کے اجراء کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اس کرنسی کا اعلان ہنوز ہوا نہیں لیکن آثار یہی ہیں کہ جلد یا بدیر اس کا اعلان متوقع ہے اور اس کے لئے مناسب وقت کا انتظار کیا جارہا ہے، اس کا فیصلہ بہرحال چین ہی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ جب وقت آیا، اس کا اعلان کر دیا جائے گا یا یہ کہ امریکہ ایک مرتبہ پھر بدحواسی میں شدید پابندیوں کا اعلان کرے اور چین کو ازخود موقع فراہم کر دے، گو کہ چین اور روس نے اب ایسی امریکی پابندیوں کو خاطر میں لانا چھوڑ دیا ہے اور اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں لہذا زیادہ امکان یہی ہے کہ چین اپنی تمام تر پیش بندیاں کرکے اپنے وقت پر نئی کرنسی کا اعلان کر سکتا ہے۔ یوں اگر ڈالر کے متبادل دوسری کرنسی متعارف ہو گئی، جس میں دنیا کے بیشتر ممالک تجارت کرنا شروع ہوگئے تو یقینی طور پر ڈالر کی قدر کو شدید زک پہنچ سکتی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک تجارت نئی عالمی کرنسی میں کر رہے ہوں گے اور یوں ڈالر کی عالمی قدر میں کمی نظر آئے گی۔ بظاہر تو یہ دیوانے کا خواب لگتا ہے لیکن ریاست پاکستان پر لدے قرضے کا حجم اسی صورت کم ہوتا دکھائی دیتا ہے اور پاکستان بیرونی قرضوں سے اسی صورت نجات پاتا دکھائی دیتا ہے بشرطیکہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کو اس نئی متبادل کرنسی میں بھی یوں ہی قرضوں کے بوجھ تلے نہ لاد دیا ۔اس کے متعلق حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن نئی عالمی متبادل کرنسی بہرطور قرضوں کی دلدل میں پھنسی ریاست پاکستان کے لئے غیبی مدد ثابت ہو سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button