غیر مہذب لوگوں کے انسانی حقوق؟

غیر مہذب لوگوں کے انسانی حقوق؟
روشن لعل
کرہ ارض پر انسانی حقوق کا تصور تہذیبوں کے ارتقائی سفر کے دوران اجاگر ہوا۔اس ارتقائی سفر کے دوران جہاں خاص احساسات رکھنے والے انسانوں نے انسانی حقوق کے خد و خال وضع کر کے ان کے نفاذ پر زور دیا وہاں ایسے انسان بھی سامنے آئے جو جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسے قانون کو رائج رکھنے پر اپنی توانائیاں صرف کرتے رہے۔ تاریخ کے ارتقا کے دوران انسانی حقوق وضع کرنے والے انسانوں نے صرف حقوق کے احترام کو لازمی قرار نہیں دیا بلکہ تہذیب کی عائد کردہ واجب ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا بھی کہا۔ سماج میں انسانی حقوق کا احساس اجاگر ہونے کے بعد جہاں حقوق کے حصول کے ساتھ واجب ذمہ داریاں پوری کرنے کی مثالیں قائم کرنے والے انسان پیدا ہوئے وہاں ایسے لوگ بھی سامنے آتے رہے جنہوں نے انسانی حقوق پانے کے لیے تو لائن میں سب سے آگے کھڑے ہونے کی کوشش کی لیکن واجب ذمہ داریاں نبھانے کو کبھی ترجیح نہ بنایا۔ اس طرح کے متضاد رویے سامنے آنے کے بعد اپنی واجب ذمہ داریاں نبھانے اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والوں کو اگر مہذب کہا گیا تو ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنے والوں کے لیے غیر مہذب کا لفظ استعمال کیا گیا۔ قبل ازیں تاریخ میں شہریوں اور دیہاتیوں کی عادات و اطوار میں فرق کی بنا پر اول الذکر کو مہذب اور آخری الذکر کو غیر مہذب کہا جاتا تھا۔ مہذب اور غیر مہذب انسانوں میں نئی تفریق واضح ہونے کے بعد کچھ حلقوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ جو لوگ غیر مہذب ہیں ان کے لیے انسانی حقوق کے احترام کو کیوں ضروری سمجھا جائے۔ یہ سوال اگرچہ کسی قسم کے تعصب نہیں بلکہ غیر مہذب لوگوں کے رویوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا مگر اس کے باوجود عالموں نے اس کا یہ جواب دیا کہ رویوں کے لحاظ سے تو کسی کو مہذب یا غیر مہذب کہا جاسکتا ہے لیکن انسانی حقوق کے معاملے میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی، لہذا تہذیب کا تقاضا یہی ہے کہ مہذب اور غیر مہذب کی تفریق کے بغیر تمام انسانوں کے تسلیم شدہ حقوق کا یکساں احترام کیا جائے۔
یہ طے ہونے کے بعد کہ انسانی حقوق کے معاملے میں مہذب اور غیر مہذب لوگوں میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی یہ بھی تسلیم کر لیا گیا کہ غیر مہذب لوگوں کے انسانی حقوق کا احترام بھی مہذب لوگوں کے حقوق کی طرح ہی کیا جائے گا۔ غیر مہذب لوگوں کے انسانی حقوق کا احترام تو ہر طرح سے جائز بات ہے لیکن اگر کوئی غیر مہذب لوگوں کے انسانی حقوق کو مہذب لوگوں سے بھی زیادہ ضروری قرار دینا شروع کر دے تو کیا اسے قابل جواز سمجھا جاسکتا ہے۔ آج کل دنیا میں اکثر ایسی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں جن میں چوری سینہ زوری کرتے ہوئے مہذب لوگوں کے انسانی حقوق پر تو دن دیہاڑے ڈاکہ ڈال دیا جاتا ہے مگر جونہی غیر مہذب لوگوں میں سے کوئی قانون کی گرفت میں آتا ہے تو انسانی حقوق کے نام پر اس کے لیے ان رعایتوں کا مطالبہ شروع کر دیا جاتا ہے جنہیں قبل ازیں رائج قوانین کی آڑ میں مہذب لوگوں کے لیے شجر ممنوع قرار دے دیا گیا ہوتا ہے ۔ وطن عزیز میں ان دنوں ایسا ہی کچھ ایسا دیکھنے میں آرہا ہے ۔ اس سلسلے میں جو کچھ دیکھنے میں آرہا ہے اس کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے یہاں یہ بتایا جائے گا کہ مہذب اور غیر مہذب لوگوں کے رویوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔
مہذب انسان وہ ہوتا ہے جس میں دوسروں کے لیے لگائو نظر آئے، جو دوسروں کی تکلیف پر اپنے اندر تشویش اور دکھ محسوس کرے، جو دوسروں کے جذبات کا احترام کرے، کسی کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرے، دوسروں کو سنتے وقت ایسا رویہ ظاہر نہ کرے جس سے انہیں یہ لگے کہ اس کا دھیان کسی اور طرف ہے، دوسرو ں پر اپنے خیالات حرف آخر کی طرح ظاہر نہ کرے ، اگر کوئی محاذ آرائی پر آمادہ ہو تو تند و تیز لہجے میں جواب دینے کی بجائے حتی الامکان کوشش کرے کہ لفظی جنگ شروع ہونے کی بجائے مکالمے کا ماحول پیدا ہو جائے۔ تنازعات کا دائرہ وسیع کرنے کی بجائے انہیں جلد از جلد نجی طور پر حل کرنے کی کوشش کرے۔ اپنے اندر یہ سوچ پیدا کرے کہ دوسروں کے حقوق اس کے حقوق کی طرح ہی اہم ہیں۔ دوسروں کے ساتھ دھوکہ دہی، دغا بازی اور ان کی حق تلفی کے لیے کوئی جواز تلاش نہ کرے، دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے اور رائج قوانین میں اگر کوئی جھول بھی ہو تو اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔
مہذب لوگوں کے برعکس ، غیر مہذب لوگوں کہ رویے کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ منفرد صلاحیتیں نہ ہونے کے باوجود وہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں، دوسروں کے جذبات اور احساسات کی ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی، دوسروں کے ساتھ اہانت آمیز لہجے میں بات کرنا اپنا تفاخر بنا لیتے ہیں، کسی بھی شخصیت کی مثبت باتوں کو نظر انداز کر کے اس کی عیب جوئی کرتے رہنا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے، کسی محفل میں دوسروں کی رائے پر جان بوجھ کر اس طرح ردعمل ظاہر کرتے ہیں کہ رائے دہندہ بے وقعت سمجھ لیا جائے۔ کسی کے ساتھ گفتگو میں لاجواب ہونے پر اس کے لیے دھمکی آمیز زبان استعمال کرتے ہیں۔ اسی تسلسل میں دوسروں پر چیخنا ، انہیں گالیاں دینا ، ان پر بہتان تراشی کرنا اور کسی کی ناپسندیدہ بات پر اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا غیر مہذب لوگوں کا معمول بن جاتا ہے ۔ ایسے لوگ صرف دھمکیاں ہی نہیں دیتے بلکہ موقع ملنے پر اس کا عملی اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ اپنی بدعملیوں پر ظاہر ہونے والے نتیجوں کا الزام دوسروں پر عائد کر دیتے ہیں۔ جو کام ان کی اپنی سستی ، نااہلی یا نالائقی کی وجہ سے نہ ہو پائے اس کے لیے آسانی سے مخالفوں کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں۔ غیر مہذب لوگوں کو اگر موقع ملے تو مخالفوں کی غیر قانونی نگرانی کر کے ان سے متعلق ایسی معلومات حاصل کر لیتے ہیں جسے بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ خود نااہل ترین ہونے کے باوجود یہ دوسروں پر نااہلی کا الزام لگاکر ان کی اہلیت کو مسترد کرتے ہوئے اپنی نالائقیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غیر مہذب لوگوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کو فیصلوں کا حصہ تو نہیں بناتے مگر ان پر ہر ناکامی کی ذمہ داری کا بوجھ ضرور ڈال دیتے ہیں۔
اگر ہم وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں مطلق مہذب لوگ ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن اگر مطلق غیر مہذب لوگوں کی بات کریں تو ان کی سماج میں نشاندہی کرنا قطعاً مشکل کام نہیں لگتا۔ اب اگر کسی لگی لپٹی کے بغیر بات کی جائے تو صاف لفظوں میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں برسوں تک غیر مہذب رویوں کو اس طرح پروان چڑھایا گیا کہ ان کا نتیجہ پھر 9 مئی کے واقعات کی صورت میں برآمد ہوا۔ یہ بات مان لی کہ 9 مئی کے واقعات میں کھلے عام اور درپردہ ملوث غیر مہذب لوگوں کے بھی انسانی حقوق ہیں مگر یہ کیسے مان لیا جائے کہ ان کے حقوق ان مہذب لوگوں سے بھی زیادہ ہیں جنہیں بلاوجہ ظلم کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور جو اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔







