Column

جھنڈے کا ڈنڈا

جھنڈے کا ڈنڈا

سیدہ عنبرین
اسمبلیاں توڑنے کا رسمی اعلان ہو چکا ہے، یہ کتنا پائیدار ہے اس کا اندازہ آئندہ چند روز میں ہو جائیگا۔ حتمی اعلان برائے عام انتخابات الیکشن کمیشن کریگا، اسی اعلان میں انتخابات کے نتائج کا اعلان مضمر ہو گا۔ انتخابات سے قبل موجودہ حکومت کو دو بڑے مسائل کا سامنا تھا، دونوں کا علاج کر دیا گیا ہے، دونوں مسائل کا آپس میں بظاہر کوئی تعلق نہیں بنتا لیکن تعلق ہو نہ ہو تعلق استوار ہونے میں کیا دیر لگتی ہے۔ ہاتھ ہوں یا ہونٹ، آنکھ ہو یا کچھ اور، بس سب کچھ اسی طرح ایک اشارے پر ہو جاتا ہے، جس طرح آئی ایم ایف کے ایک اشارے پر انہونی ہونی ہو جاتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے روز محشر ہمارے تمام اعضا ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے۔ گواہی کا ڈر انہیں ہوتا ہے جو گواہی پر یقین رکھتے ہیں، جنہیں گواہوں کو غائب کرنے، انہیں منحرف کرانے اور غائب کرنے میں مہارت ہو وہ کسی سے نہیں ڈرتے، حکومت کو درپیش مسائل کی طرف پلٹتے ہیں۔ مردم شماری ہوچکی ہے، اس کے اعداد و شمار کے مطابق2018ء میں تیرہ برس کے نوجوان لڑکوں او لڑکیوں کی عمریں اب اٹھارہ برس سے زیادہ ہوچکی ہیں، وہ ووٹ دینے کے اہل ہو چکے ہیں، ان نوجوانوں کی تربیت ان کے والدین، اساتذہ کرام سے زیادہ ان کے آس پاس موجود ماحول اور سوشل میڈیا نے کی ہے، انہوں نے تعلیم، تہذیب، ہنر کی نسبت میوزک، رقص، وقت کا ضیاع، میک اپ، ڈریس، فارغ اوقات میں پیکیج پر لایعنی گفتگو، کم وقت میں زیادہ روپیہ کمانے کے نسخے، ملک چھوڑ کر غیر ممالک جانے کے جدید طریقے زیادہ سیکھے ہیں، جس میں اپنی امی حضور یا ابا حضور کی عمر کے مرد و خواتین سے شادی کر کے غیر ملک کی شہریت حاصل کرنا اور اس سے قبل انٹرنیٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہے۔ یہ نوجوان نسل اپنے مقاصد میں کتنی کامیاب ہوتی ہے، کتنی ناکام ہوتی ہے، اس کا اندازہ انہیں ہے نہ انکے والدین کو، لیکن ایک بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ منفی سوچ رکھنے والی نسل زندگی میں کوئی مثبت رول ادا نہیں کر سکتی۔ اس نسل کی تعداد میں گزشتہ پانچ برس میں پندرہ کروڑ کا اضافہ ہوا ہے، یہ پندرہ کروڑ افراد اگر ووٹرز لسٹ میں شامل کر لیے جائیں تو اندازہ کر لیجئے کہ یہ اپنی سوچ اور تربیت کے اعتبار سے کسے ووٹ دیں گے۔ ان کا فیصلہ ملکی انتخابات ملکی پالیسیوں پر کتنا اثر انداز ہو گا، کس قسم کے لوگ منتخب ہونگے پھر ایوان کے اندر انکا کردار کیا ہوگا، اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ عام انتخابات پرانی ووٹرز لسٹوں کے مطابق ہونگے۔
حکومت کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ایک نئی تصویر بھی ابھرتی ہے، اس میں نئے ووٹرز نہ بھی ہوں تو وہی رنگ بھرا جائے گا جس سے حکومت خوفزدہ نظر آتی ہے۔ ساڑھے چھبیس کروڑ عام شہریوں میں سے ننانوے فیصد افراد کو وزیراعظم، صدر پاکستان، صوبے کے چیف منسٹر، کسی وزیر مشیر، کسی سینئر یا گریڈ بائیس کے افسر سے کبھی کوئی کام نہیں پڑتا، اس کے مسائل تھانہ کچہری، ملاوٹ مافیا، قبضہ مافیا، پٹرول مافیا اور مہنگائی مافیا کے گرد گھومتے ہیں۔ عام آدمی کو شیر اقتدار میں آئے یا چیتا، شرافت کی سیاست کے علمبردار حکمران ہوں یا بدنام زمانہ ہوں، انہیں اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ شور صرف میڈیا کی خبروں، تبصروں، سکرینوں پر تمام سال نظر ضرور آتا ہے، الیکشن مہم میں یہی بتایا جائے گا کہ فلاں نہ ہوا تو آسمان سر پر آ گرے گا قیامت آجائے گی۔
مگر درحقیقت ایسا کبھی ہوا ہے نہ آئندہ ہو گا۔ ایک ہزار سے بارہ سو افراد براہ راست آنے والے انتخابات کے بعد نئی زندگی پائیں گے اور قریباً اتنے ہی افراد بالواسطہ اس کے ثمرات سمیٹیں گے۔ عام آدمی کی مزید خواری کے دن آ رہے ہیں، نئی حکومت آتے ہی حسب سابق اور حسب وعدہ کرنسی کی قیمت کم کرے گی، جس سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ سب کچھ پرانی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر لوٹ مار کا نیا کھاتہ کھولا جائیگا۔2018ء کو بھول جائیے، گزشتہ حکومت کے آخری ماہ میں آٹا78روپے، پٹرول160روپے لٹر، چینی80 روپے، گھی300روپے، بجلی14روپے یونٹ تھی۔ آج آٹا180روپے، پٹرول250 روپے، چینی170روپے، گھی650 روپے، بجلی50روپے یونٹ، ڈالر کبھی170روپے تھا، آج 272روپے ہے۔
نئے ووٹرز کو انتخابات سے دور بھی رکھ لیں مہنگائی کا مارا عام آدمی مہنگائی کا عذاب ڈھانے والے عظیم رہنمائوں کو کیوں ووٹ دے گا۔ سو روپے لٹر کا پٹرول لالی پاپ دستیاب نہیں، صرف لیپ ٹاپ بانٹنے کی تقریب میں ایک نوجوان کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دینے والے جھانسے میں پوری قوم تو نہیں آئے گی، اسی طرح چار سو ملین روپے کی لاگت سے تیار کیا جانے والا بلند ترین قومی پرچم قوم کے سر پر لہرا دینے سے اس کے مسائل کم نہ ہونگے۔ قوم کی نظر پرچم پر کم اور اس میں گھسائے گئے ڈنڈے پر زیادہ ہے، جو جانے کہاں کہاں گھستا نظر آرہا ہے۔ حکومت کا دوسرا مسئلہ گدھوں کی تعداد میں اضافہ تھا۔ حکومت نے دونوں مسائل پر بظاہر قابو پا لیا ہے، انتخابات کا نتیجہ بھی اس کے حق میں ہو گا حالانکہ ووٹ اس کے مخالفین کو زیادہ ملے ہونگے، یہ ووٹ مہنگائی کے ماروں کے ہو نگے۔

جواب دیں

Back to top button