تازہ ترینخبریںسیاسیات

عمران خان کے قابل اعتماد سیکریٹری سے وعدہ معاف گواہ تک: اعظم خان کی دلچسپ کہانی

اعظم خان سینٹرل سوپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے 1990 بیچ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پورے پاکستان میں 17ہویں کامن سی ایس ایس امتحان میں ٹاپ کیا تھا۔

برن ہال ایبٹ آباد سے اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا۔ ملک بھر کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد انہیں ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) میں تقرر کردیا۔

اعظم خان بطور وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری: ایک دلچسپ کہانی
یہ سنہ 2013 کی بات ہے۔ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک وزیراعلیٰ تھے اور سیکریٹری داخلہ کی مختلف امور پر ان سے ٹھن چکی تھی۔ عام طور پرصوبے میں تعینات سیکریٹری اپنی نوکری بالخصوص اہم تقرری بچانے کے لیے سر جھکاتے اور وزیراعلیٰ کی ہاں میں ہاں ملا کر کام چلاتے ہیں مگر یہ سیکریٹری داخلہ ٹیڑھے مزاج کے آدمی تھے۔ انھیں اپنے کام میں مداخلت پسند نہ تھی جس پر انھوں نے وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ کام کرنے سے دو ٹوک انکار کر دیا۔اعظم خان کے سیکریٹری داخلہ کے طور پر استعفے کو وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا نے پسند نہ کیا، لہٰذا انھیں ’کھڈے لائن‘ تقرری کے طور پر سیکریٹری سیاحت تعینات کر دیا گیا۔ بیوروکریسی کی دنیا میں ’کھڈے لائن‘ کی اصطلاح ایسی تقرری کے لیے استعمال کی جاتی ہے جہاں اختیارات ہوں نہ وسائل
لیکن اعظم خان کو یہ ٹھوکر راس آگئی۔ اعظم خان کچھ عرصہ یہاں تعینات رہے، پھر انھیں ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا جیسے مشکل عہدے پر تعینات کیا گیا، اور وہاں کچھ عرصہ تعیناتی کے بعد انھیں دوبارہ سیکریٹری سیاحت خیبر پختونخواہ لگا دیا گیا۔

اس بار سیکریٹری سیاحت تعیناتی کے دوران انھوں نے اپنے پہلے دور میں تیار کیے گئے منصوبوں کو نکالا اور ان پر عملدرآمد شروع کر دیا۔انھوں نے صوبے بھر میں میلے منعقد کروانے شروع کر دیے اور خصوصی طور پر نتھیا گلی کو سیاحت کے لیے پُرکشش بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ قسمت کہیے یا کچھ اور کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان گرمیوں میں وقت گزارنے کے لیے نتھیا گلی پہنچے تو انھوں نے علاقے میں لائی جانے والی مثبت تبدیلیاں دیکھیں۔

معلوم کرنے پر انھیں بتایا گیا کہ یہ نئے سیکریٹری سیاحت اعظم خان کے اقدامات ہیں۔ عمران خان کی ہدایت پر اعظم خان انھیں ملے اور انھیں سیاحت کے فروغ کے لیے اپنے ایجنڈے سے آگاہ کیا۔ یہ ملاقات آئندہ آنے والے دنوں میں ہونے والی ایک گہری قربت کا ذریعہ بن گئی۔ ان دنوں عمران خان وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سے مایوس تھے کیونکہ پرویز خٹک کے ساتھ دو چیف سیکریٹری محمد ارباب شہزاد اور امجد علی خان چل نہیں پائے تھے جبکہ تیسرے چیف سیکریٹری عابد سعید کے بارے میں بھی اچھی اطلاعات موصول نہیں ہو رہی تھیں۔

عمران خان چیف سیکریٹری کے طور پر اپنے اعتماد کا افسر تعینات کرنا چاہتے تھے۔ انھیں علم تھا کہ اعظم خان اور پرویز خٹک میں باہمی اعتماد کا فقدان ہوگا اور وہ اسے اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے تھے تاکہ لاہور میں بیٹھ کر خیبر پختونخوا کو ریموٹ کنٹرول کیا جاسکے۔ اعظم خان ستمبر 2017 سے جون 2018 تک چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے اور اس دوران صوبے کی ساری بیوروکریسی کو اس بات کا علم تھا کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے عملی طور پر زیادہ خودمختار اور بااختیار اعظم خان تھے جن کے معاملات میں وزیرِ اعلیٰ کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں تھی۔ یہ سب صرف اور صرف عمران خان کی سرپرستی کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔18 اگست کو عمران خان نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا تو اعظم خان ان کے پہلے سیکریٹری تعینات ہوئے۔

ایک ماہ قبل اغوا ہونے والے اعظم خان سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے
عمران خان کے خلاف بطور وزیراعظم ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان گواہ بن گئے ہیں۔ انہوں نے مجسٹریٹ کو ریکارڈ کرائے گئے بیان میں سابق وزیراعظم پر وزارت خارجہ کے سائفر کو اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کیخلاف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اعظم خان نے یہ سنگین الزام بھی عائد کیا ہے کہ عمران خان نے سائفر ان سے لیا تھا جسے انہوں نے گم کر دیا اور بعد میں کبھی واپس نہیں کیا۔

اعظم خان کے بیان کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’سائفر کو غلط رنگ دے کر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا‘۔

اعظم خان نے بیان میں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر مجھ سے 9 مارچ کو لے لیا اور بعد میں گم کر دیا، چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر ڈرامے کے ذریعے عوام میں ملکی سلامتی اداروں کے خلاف نفرت کا بیج بویا، سائفرکو جان بوجھ کر ملکی سلامتی اداروں اور امریکا کی ملی بھگت کا غلط رنگ دیا گیا،منع کرنے کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکریٹ مراسلہ ذاتی مفاد کے لیے لہرایا۔

جواب دیں

Back to top button