کشکول کیسے توڑا جا سکتا ہے

کشکول کیسے توڑا جا سکتا ہے
علی حسن
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ اب ہمارے سامنے آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کشکول توڑ دیں، مقروض رہنا چھوڑ دیں ’ محتاجی کی زنجیریں توڑ دیں‘ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں جس کا ہراول دستہ عوام کو بننا ہو گا۔ سابق حکومت نے بڑے صنعتکاروں کو 3ارب ڈالر قرض دیا، یہ رقم تعلیم پر خرچ ہوتی تو آج پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑتا۔ ہم نے ریاست بچانے کیلئے اپنی سیاست کی قربانی دی۔ انہوں نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدے کو حتمی شکل دینے کیلئے اسلامی ترقیاتی بینک کی طرف سے ملنے والے ایک ارب ڈالر نے اہم کردار ادا کیا ہے، اس مدد کے بغیر پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ مشکل تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مشکلات کے باوجود معاہدہ میں کامیاب رہے، پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے عظیم مقصد کے حصول کیلئے معاشی بحالی کا ایک جامع قومی پلان تیار کر لیا گیا ہے، اب پوری قوم یکسو ہے کہ قرض کی زندگی نامنظور ہے، قوم کوایک بار پھر معاشی مشکلات سے نجات دلائیں گے، روزگار فراہم کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قرض لیتے لیتے ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں بلکہ اپنی ساکھ اور وقار کو بھی بے پناہ مجروح کر چکے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنا ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ وزیر اعظم کا بیان بہت حوصلہ افزاء ہے لیکن پاکستان کے موجودہ حکمرانوں ، سیاست دانوں اور اعلیٰ افسران کی موجودگی میں کشول کا توڑا جانا مشکل اس لئے نظر آتا ہے کہ پر تعیش اور سہولتوں سے بھر پور زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔ پاکستان نے اپنی معیشت کا ڈھانچہ اس طرح کھڑا کر لیا ہے کہ کشکول توڑنا مشکل نظر آتا ہے۔
کیا ہمارے سیاستدان دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی طرح نہایت سادہ زندگی گزارنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ دہلی حکومت نے کرپشن سے پاک حکومت میں اپنے عوام کو کئی ایسی سہولتیں فراہم کر دی ہیں جس کو تصور کرنا بھی ہمارے لئے مشکل ہے۔ کیا بجلی کے تین سو یونٹ مفت فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ کیا ہسپتالوں میں دوائیں اور علاج مفت ( حکومت سندھ نے ایسا انتظام کیا ہے لیکن کرپشن کی وجہ سے مفت علاج عملا ممکن نہیں رہا ہے ) کیا جا سکتا ہے۔ بسوں میں خواتین کا سفر مکمل مفت کر دیا گیا ہے۔ پینے کا صاف پانی مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ اور دیگر کئی سہولتیں جنہیں دہلی کے وزیر اعلیٰ ’’ سات ریوڑیاں ‘‘ قرار دیتے ہیں، عوام کو فراہم کی ہیں۔ انہوں نے کرپشن کے تمام ذریعوں کو بند کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی حکومت کو پیسہ میسر ہے۔ اگر ہمارے حکمران طے کر لیں کہ انہیں سادہ زندگی بسر کرنا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ کشکول نہ توڑا جا سکے۔ لیکن کیا بیس لاکھ روپے کی مالیت کا پینٹ پہننے والے ایسا کر سکتے ہیں۔ کیا لاکھوں روپے کی مالیت کے دوپٹے، چپل اور پرس استعمال کرنے والے ایسا کر سکتے ہیں۔ یہ کیوں ممکن نہیں ہے کہ سب لوگ اندرون ملک ہوائی جہاز کا سفر بند کر دیں۔ یہ کیوں ضروری ہے کہ مہنگی اور پر تعیش بڑی بڑی سرکاری گاڑیاں استعمال کی جائیں۔ کیوں ضروری ہے کہ اہل اقتدار کے دفتر میں جنریٹر چلیں ، گھروں پر ’’ چوری‘‘ کی بجلی چلے اور عام لوگ بجلی کے لئے بلبلا رہے ہیں۔ ان کا کاروبار تباہ ہو گیا ہو۔ ہمارے حکمران کو اپنی زندگی عام لوگوں کی سطح پر آکر گزارنا ہوگی تو ہی کشکول توڑنا ممکن ہوگا۔ وگرنہ لوگ تو یہ ہی کہیں گے کہ و زیر اعظم بھی زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ آئی ایم ایف معاہدے کی معمولی خلاف ورزی کو بھی برداشت نہیں کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ایم ڈی آئی ایم ایف کرسٹالینا جارجیوا کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہنا تھا کہ بورڈ کو ماضی کے اعتماد کے فقدان کے باعث معاہدے پر عمل درآمد پر شک تھا، وزیراعظم سے مسلسل رابطہ رہنے پر بورڈ کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان وعدے پورے کرے گا۔ کرسٹالینا جارجیوا نے کہا کہ انہوں نے بورڈ کو بتایا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم سے ذاتی طور پر ملی ہیں، انہیں وعدے پورے کرنے پر سنجیدہ پایا، آئی ایم ایف اور پاکستان میں مضبوط شراکت داری اور باہمی اعتماد ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کا اہم ممبر ہے، مدد جاری رہے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے کی معمولی خلاف ورزی کو بھی برداشت نہیں کروں گا، یہ حکومت اگست تک رہے گی جس کے بعد عبوری حکومت آجائے گی، مجھے یقین ہے نگراں حکومت ذمہ داریوں کو پورا کرتی رہیگی، عوام نے دوبارہ منتخب کیا تو آئی ایم ایف کی مدد سے معیشت کو بہتر کریں گے۔
سٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف سے 1.2ارب ڈالر موصول ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ دریں اثنا آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی کارکردگی سے متعلق رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق سال 2023۔24میں معاشی شرح نمو 2.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ پاکستان کا غیرملکی قرضہ جو گزشتہ برس 123.57ارب ڈالر تھا 13ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ رواں مالی سال میں 136ارب ڈالر ہوجائے گا۔ بیرونی قرض مالی سال 2027۔28کے اختتام تک بیرونی قرض 152.136ارب ڈالرز تک جا سکتا ہے، مارچ2024کے بعد اگلا آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہو جائے گا ۔پاکستان میں بہت سے ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اس طرح کے تخمینے فنڈ سپانسرڈ پروگرام کو محفوظ بنانے کے حق میں بیانیہ تیار کرنے کے ارادے سے لگائے گئے ہیں۔ تاہم بیرونی قرضوں کی بڑھتی ہوئی رفتار کو مدنظر رکھتے ہوئے بیرونی قرضوں کی صورتحال پاکستان جیسے ملک کے لیے سنگین تشویش ناک صورت حال پیدا کر رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے قرضوں کی مجموعی پائیداری پر سوال اٹھائیں گے کیونکہ پاکستان زرمبادلہ میں ادائیگیوں کے لیے ڈالر پرنٹ نہیں کر سکتا۔ اندرون ملک سے قرضہ بھی سپر سونک رفتار سے بڑھ گیا اور سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن خود مختار ریاست ہونے کی وجہ سے روپے کی مدت میں ادائیگیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ مرکزی بینک مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دبائو کی قیمت پر بھی اپنی کسی بھی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے روپیہ پرنٹ کر سکتا ہے۔ لیکن ڈالر یا کسی اور غیر ملکی کرنسی کی صورت میں اس عیش و آرام کا لطف نہیں اٹھایا جا سکتا اس لیے غیر ملکی قرضوں کے حصول کے لیے اضافی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
اس تماش گاہ کی اب ایک خبر یہ بھی پڑھ لیں۔ سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل 10سال بعد سماعت کیلئے مقرر کردی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 20جولائی کو پرویز مشرف کی درخواست کی سماعت کرے گا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے 2013میں کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ کو کوئی آگاہ کرے کہ سابق صدر پرویز مشرف رواں سال 5فروری کو بیرون ملک انتقال کر گئے تھے لیکن ان کی تدفین پاکستان میں ہوئی تھی۔ ختم شد







